حقیقی اور تصوراتی دنیا
حقیقی اور تصوراتی دنیا
تحریر: میاں وقارالاسلام
ویسے تو یہ دنیا ہم سب کے لیے ایک ہی دنیا ہے۔ دوسری طرف اگر تصور کیا جائے تو ہم ایک سے زیادہ دنیاؤں میں رہتے ہیں۔ جیسے ہمارے ذہن میں جنت اور دوزخ کا تصور ہے ویسے ہی ایک کچھ دنیاؤں کا وجود ہمارے دل میں ہوتا ہے اور کچھ دنیاؤں کا وجود ہمارے دلوں میں ہوتا ہے۔ جس طرح ہم اپنی دنیا کو خوبصورت دیکھنا اور بنانا چاہتے ہیں ویسے ہی ہم اپنے تصور کی دنیا کو بھی خوبصورت دیکھنا اور بنانا چاہتے ہیں جس کا وجود یا تو ہمارے دلوں میں ہوتا ہے اور یا پھر ہمارے دماغوں میں۔
جوں جوں ہم بڑے ہوتے ہیں ہماری حقیقی دنیا ہمارے سامنے رنگ بدلتی نظرآتی ہے اور اچھے، برے یا مشکل حالات سے ٹکراتی ہوئی بھی نظر آتی ہے۔ اسی طرح ہمارے اندر کی دنیا بھی حالات کا سامنے کرتے ہوئے مختلف انداز سے ہمارے سامنے آتی ہے۔ جس طرح ہم اپنے باہر کی دنیا کو مختلف روپ میں دیکھتے ہیں ویسے ہی ہمیں ہمارے اندر کی دنیا مختلف روپ میں ملتی ہے۔ بعض دفعہ یہ بدلتے ہوئے روپ ہم دوسروں کو بیان کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہتے ہیں اور بعض دفعہ ہم اسے بالکل بھی بیان نہیں کرپاتے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے تصور کی دنیا یا تو کھل کر باہر آ جاتی ہے یا پھر کہیں دبی سی حالات کی راکھ کے نیچے سلگتی رہتی ہے اور کوشش کرتی رہتی ہے کہ ہم حالات سے لڑتے رہیں اور اس کے کے وجود کو باہر لا سکیں۔
باہر کی دنیا ہمیں کچھ اور بنانا چاہتی ہے جسے کہ ڈاکٹر، انجئیر، وکیل، استاد یا پھر کوئی بھی اور کاروباری، سیاسی یا سماجی کارکن۔ اور ہمارے اندر کی دنیا ہمیں کچھ اور بنانا چاہتی ہے جیسا کہ مصور، شاعر، گلوکار، افسانہ نگار یا پھر فن یا پھر کھیل سے متعلق کچھ جیسا کہ کرکٹر، فٹ بالر یا کوئی کوئی بھی اور کھیل۔
باہر کی دنیا ہمیں پریکٹیکل دیکھنا چاہتی ہے مگر اندر کی دنیا ہمارے شوق کی تسکین چاہتی ہے۔ جس طرح ہمارا پریکٹیکل کریکٹر ہوتا ہے اسی طرح ہمارا ایموشنل کرکٹر ہوتا ہے۔
ایک موٹیویشن یا انسپائیشن ہم پر مسلط کی جاتی ہے اور ایک ہمارے اندر سے پیدا ہوتی ہے۔ یعنی ایک شخص اچھا دوڑ سکتا ہے مگر اس سے جمپنگ کروائی جاتی ہے یا پھر ایک شخص اچھی جمپنگ کر سکتا ہے مگر اس سے دوڑ لگوائی جاتی ہے۔
بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے اندر کے احساسات اور باہر کے محرکات ایک ہی پیج پر آ جائیں۔
ہماری باہر کی دنیا یہ زور لگاتی رہتی ہے کہ وہ ہمارے اندر جگہ بنا سکتے اور ہمارے اندر کی دنیا یہ زور لگاتی رہتی ہے کہ وہ باہر کی دنیا میں اپنی جگہ بنا سکے۔
جب ہم اپنے اندر کی کشمکش کو لوگوں کے سامنے لاتے ہیں تو ہمیں اس صورتِ حال کا مختلف انداز میں سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیوں کہ ہر انسان اس طرح کی صورتِ حال سے گزر چکا ہوتا ہے اس لیے وہ اپنے تجربات کے لحاظ سے اس کا جواب دیتا ہے۔ کچھ لوگ ہماری کشمکش کو پوری طرح دبانے کی کوشش کرتے ہیں، اور کچھ لوگوں کو دبا بھی دیتے ہیں، کچھ لوگ ہاں اور ناں کے درمیان رہتے ہوئے کوئی فیصلہ نہیں کر پاتے اور تیسرے لوگ وہ ہوتے ہیں جو ہماری کشمکش کو بہترین راستہ دینے میں کامیاب ہو جاتاہے ہیں۔
والدین اپنے بچوں کو اگر ڈآکٹر دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر اپنے بچے کی کسی اور خوبی کی طرف غور ہی نہیں کرتے یوں بچوں کی اندر کی دنیا وہیں دب جاتی ہے مگر مرتی نہیں اور وہ اپنی کشمش کا دائیں بائیں اظہار کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں بعض دفعہ خطرناک حالات کا سامنا بھی کرنا پڑ جاتا ہے کیوں کہ لازمی نہیں کہ ان کا سننے والا ان کے ساتھ مخلص بھی ہو۔ یا پھر انہیں کوئی دوست، استاد یا ساتھ ایسا بھی مل سکتا ہے جو ان کی کشمکش کو درست موڑ دے دے اور وہ شروع ہی سے درست راہ کا انتخاب کر پائے۔
بچپن کی بات ہے جب میری شاعری کو شاعری بھی نہیں کہا جا سکتاہے، جب میرے والد نے اس دیکھا تو کچھ خاص حوصلہ افزائی نہیں کی، فطری سی بات ہر کوئی بھی والد نہیں چاہے گا کہ اس کا بچہ اپنی تعلیم کو کمپرومائز کرے۔ شاید اسی وجہ سے آج تک شاعری میرا آخری شوق ہی رہی۔ مگر میں نے اس شوق کو کبھی مرنے نہیں دیا۔
شاعری میرے آخری شوق تک رہنے کے باوجود بھی مجھے بہت کچھ دے پائی، شاعری نے مجھے موقع دیا کہ میں اپنی اندر کی دنیا کو مسخر کر سکوں اور اپنے احساسات کو باہر لا سکوں۔ شاعری نے مجھے وہ انسان بھی بنا دیا جو مجھے میرے تعلیمی ادارے کبھی نہیں بنا سکتے تھے۔ شاعری میرے اندر محبت سے بھرے ہوئے جذبات کو لے کر چلی جس کی وجہ سے میں اپنے تک آتی ہوئی ہر محبت کو محسوس کر سکا اور اسی احساس کے ساتھ اسے لوگوں تک واپس بھی پہنچا سکتا۔ شاید اسی سفر میں میں نے اپنے رب کی تلاش بھی کی انہیں جذبات سے قران کو بھی پڑھا اور اسی جذبات سے لوگوں کو بھی سمجھا۔ شاعری اگر میری ہمسفر نہ ہوتی تو شائید ایک ادھورا پن میرے اندر ضرور رہ جاتا۔
جب میں کسی نئے لکھنے والے سے ملتا ہوں یا بات کرتا ہوں، تو اسے کبھی نہیں روکتا کہ وہ اپنے شوق کو دبنے دے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں کہ وہ اپنے اندر کی دنیا کو باہر لانے کی کوشش ضرور کرے اور ساتھ یہ مشورہ بھی دیتا ہوں کہ باہر کی دنیا بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ اندر کی دنیا، شوق اس حد تک بھی نہیں ہونا چاہیے کہ اس سے آپ کی تعلیمی، کاروباری، سماجی یا پھر نجی زندگی اثر انداز ہونے لگے۔ اندر اور باہر کی دنیا کا تواز بہت ضروری ہے کیوں کے توازن برقرار نہ رہے تو کچھ بھی برقرار نہیں رہتا۔
Mian Waqar2022-07-17T22:42:32+00:00
Share This Story, Choose Your Platform!