عید آئی اور چلی گئی
تحریر: میاں وقارالاسلام
ہر سال کہ طرح عید آتی ہے اور چلی جاتی ہے، کچھ لوگ عید کی خوشیوں کو پوری طرح سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں، کچھ عید کی آدھی خوشیاں سمیٹ پاتے ہیں اور کچھ لوگوں کے حصے میں تھوڑی ہی خوشیاں آتی ہیں اور کچھ لوگوں کے نصیب میں بالکل بھی خوش ہونا نہیں ہوتا۔
زندگی بھی شاید عید کی طرح ہی ہے، دیکھیں تو خوشیوں اور رنگوں سے بھرپور اور اگر دوسری طرف دیکھیں تو غموں اور تکلیفوں سے چور جگہ جگہ سے زخمی اور بے حال۔
نہ ہی زندگی پھولوں کا بستر ہے اور نہ ہی کانٹوں کی سیج، موسموں کی طرح زندگی بھی بدلتی رہتی ہے اور اپنے سارے رنگ دیکھاتی جاتی ہے۔
اب فرق اس بات سے پڑتا ہے کہ ہم روتے زیادہ ہیں یا مسکراتے زیادہ ہیں۔
ہمارے رونے کا مسکرانے سے زندگی نے رکنا ہے نہ ہی زندگی رکی ہے۔ زندگی اپنی منزل کی طرف گامزن ہے۔
جیسے ہمارے پاس رونے اور رولانے کے ہزار بہانے ہیں، اسی طرح ہمارے پاس ہنسنے اور ہنسانے کے بھی ہزار بہانے ہیں۔
اب ہم پر منحصر ہے کہ ہم زندگی کا زیادہ حصہ عید کی طرح خوش ہو کر غموں اور تکلیفوں کو سہتے ہوئے اپنے آپ کو خوشگوار موڈ میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر دوسرا رستہ اختیار کرتے ہیں۔
دوسرا راستہ یعنی خوشیوں اور رنگوں کی طرف دیکھے بغیر اپنے زخموں کو کریدتے ہوئے اور اپنی تکلیفوں کو بڑھا چڑھا پر پیش کرتے ہوئے اور برے حالات کا واویلا مچاتے ہوئے زندگی کو گزارتے ہیں۔
مسکرانے کے لیے پیسہ نہیں چاہیئے مسکراہٹ غریب کے چہرے پر بھی آ جاتی ہے۔ اسی طرح مایوسی کی تفریق بھی امیری اور غریبی نہیں دیکھتی کئی امیر چہرے بھی مایوسی کا سیاہ رنگ پہنے رہتے ہیں۔
اللہ فرماتا ہے کہ تم میں کامیاب شخص وہ ہے جو پر سکون ہے۔ پھر اللہ یہ بھی فرماتا ہے کہ وہ صبر اور شکر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
امید کرتا ہوں کہ آپ دوستوں کی عید خوشیاں سمیٹتے ہوئے گزری ہو گی یہ جانتے ہوئے کہ زندگی میں بہت سے غم ہیں آپ نے غم بانٹیں ہوں گے اور خوشیاں تقسیم کی ہوں گی!
اللہ آپ کو مزید خوشیوں سے نوازے، آپ کو صبر اور ہمت دے اور آپ کی زندگی کو اپنے لیے اور دوسروں کے لیے پر مسرت اور بامعانی بنائے۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ ہم سب کو صبر اور شکر کرنے والے میں شامل رکھے! آمین۔
میاں وقارالاسلام