OVER PAMPER
اوور پیمپر
ضرورت سے زیادہ لاڈ پیار
تحریر: میاں وقارالاسلام
فرض کریں آپ کے دو بچے ہیں، ایک بچے کو آپ دنیا جہاں کی سہولیات فراہم کریں اور دوسرے بچے کو ضروریات کے مطابق سہولیات فراہم کریں۔ اور اس طرح دونوں کی پرورش ہوتی رہے۔ ایک کی آپ ہر طرح سے خدمت کریں اور اسے واپس خدمت کرنا نہ سیکھائیں اور دوسرے اپنے کام بھی خود کرنے پڑیں اور حسب ضرورت آپ کے کام بھی کرنا پڑیں اور یوں زندگی کا سفر جاری رہے۔
اب اللہ نہ کرے کہ آپ پر کوئی مشکل وقت آئے۔ پر اگر ایسا ہو تو کون آپ کہ بہتر مدد کر پائے گا وہ جسے آپ نے اوور پیمپر کیا یا وہ جسے آپ نے کم پیمپر کیا! آپ میں سے اکثر یہی کہیں گے کہ جسے کم پیمپر کیا گیا وہ زیادہ مدد کرے گا مگر ایسا کیوں ہوتا ہے جسے ہم نے اوور پیمپر کیا مدد تو اس کو کرنی چاہیئے تھی۔
ہوتا یوں ہے کہ اوور پیمپر کرنے کی وجہ سے ہم نے ایک بچے کو بالکل ہی مفلوج کر دیا اب اسے کام لینا تو آتا ہے مگر کام کرنا نہیں آتا۔
ہمارے معاشرے کی اپر کلاس میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اوور پیمپر ہیں چاہیئے وہ سرکاری اداروں میں ہوں یا پھر نجی اداروں میں یا پھر وہ ہمارے انتہائی اعلی تعلیمی اداروں کے بچے ہوں اوور پیمپرینگ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اور ہمارے قومی اداروں کو ایسی بہت سی زندہ لاشیں اٹھانی پڑتی ہیں۔ جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے۔
ہم نے ضرورت سے زیادہ اوور پیمپر وائیٹ کالرز تو پیدا کر دیئے ہیں مگر حسب ضرورت بھی بلو کالرز پیدا نہیں کیئے۔ ہمارے ہر گریجویٹ کر بڑی ٹیبل، بڑی کار اور بڑا گھر تو چاہیئے مگر کام کرنے کی کپیسٹی تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے۔
چائنہ کے ٹاپ کوالیفائیڈ انجینئرز یا ایگزیکیٹو ملٹی ٹاپ کام کرنے میں بالکل نہیں ہچکچاتے جبکہ ہمارے عام سے گریجویٹس میں بڑی سطح پر کام نہ کرنے کا فقدان پایا جاتا ہے۔
بہت سی کارپوریٹ ٹریننگز لائف سکیلز یا کپیسٹی بلڈنگ کے حوالے سے کروائی جاتی ہیں جن کا مقصد صرف کام کے حوالے سے رویوں کی تبدیلی اور موٹیویشن ہی ہوتا ہے۔
منفی رویئے اور موٹیویشن کا فقدان ہمارے کلچر میں موجود ہے اور ہم میں ایک دوسرے سے سرائیت کر جاتا ہے۔ نتجہ یہ ہوتا ہے کہ سست جمع سست برابر سست!
ویسے ایک اور قوم کی سستی دیکھ کر میں اپنی قوم کی سستی بھول کیا اور وہ ہے دنیا کی سب سے اوور پیمپر قوم جو بڑا عرصہ بلیک گولڈ سے نہلاتی رہی اور آج کل بلیک دور سے گذر رہی ہے اور اپنی سستیوں کے ختم کرنے کے لیئے بہت زیادہ جستیاں دیکھا رہی ہے۔
شہزادوں کا مزاج تو چلیں سمجھ میں آتا ہے مگر ہم اپنا 200 سالہ پرانا نوابی اور راجہ مہا راجہ یا پھر مغلوں والا مزاج کب بدلیں گے!