ماڈل بیسڈ گورننس
Model Based Governance
ہمارا مسئلہ جذوی نہیں کلی ہے
مختلف فورمز پر پاکستان کے مسائل کے حوالے سے بات ہوتی رہتی ہے اور بہت سے لوگوں کا نقطہ ءنظر دیکھنے کو ملتا رہتا ہے۔ جیسا کہ ہمارا تعلیمی نظام ٹھیک نہیں، ہمارا ماحولیاتی نظام ٹھیک نہیں، ہمارا ٹریفک کا سسٹم ٹھیک نہیں، اداروں میں کرپشن ہے، پولیس اور عدلیہ ٹھیک نہیں اسی طرح ایک ایک کر کے ہر ادارے کے بارے میں یہی بات کی جاتی ہے کہ ہر جگہ سسٹمیٹک ایشیوز ہیں۔
جس طرح کے جزوی مسائل ہم سنتے ہیں اور ان پر بحث کرتے ہیں یا پھر ان پر اپنی رائے دیتے ہیں دراصل ہمارا مسئلہ سرے سے اس چیز کا نہیں ہے۔ ہماری کل عمارت جن بنیادوں پر کھڑی ہے وہ بنیادیں ہی ٹیڑھی ہیں اس لیے ہمیں عمارت کا ہر کمرہ ہر کونہ ٹیڑھا ہی نظر آئے گا اگر ہم عمارت کی بنیاد کو ٹھیک نہیں کریں گے ہمارے مسائل جوں کے توں ہی رہیں گے۔ ہم ایک ایسے درخت کی مانند ہیں جس کا تنا کمزور ہو چکا ہے اور اب کسی شاخ پر پھول اور پھل نہیں لگتے اور اگر ہم سب مل کر اپنے اس درخت کے تنے کو مضبوط نہیں کریں گے ہماری شاخوں پر کبھی پھول اور پھل نہیں لگیں گے۔
ہمارا نظام اس قابل ہی نہیں ہے کہ اس میں رہتے ہوئے کوئی ادارہ بہتر پرفارم کر سکے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کوئی ادارہ اپنے پیٹی بھائی کو عبرت کا نشان نہیں بنائے گا بلکہ اس کا تحفظ کرے گا۔ جس سے ہر کرپٹ بندے کو پوری پوری تقویت ملے گی اور اگر کوئی ٹھیک بھی ہونا چاہیے گا تو اس طرح کے لوگ اسے واپس اپنے جیسا کر لیں گے۔ یہ ماننا کہ موجودہ سسٹم میں رہتے ہوئے اس نظام کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے یہ بات ایک دیوانے کا خواب تو ہو سکتی ہے مگر اس کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
گن سے زیادہ وہ شخص اہم ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں گن ہوتی ہے۔ ہم ایک دہشت گرد کے ہاتھ میں گن پکڑا کر یہ کیسے توقع کر سکتے ہیں یہ کبھی امن بھی لا سکتا ہے۔ ہم ایک کرپٹ شخص کے ہاتھ میں اختیار دے کر یہ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ کرپشن کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ پولیس والوں کو کیا ڈر ہے کہ اگر وہ غلط کریں گے تو پکڑے بھی جائیں گے۔ یا عدلتیں جو فیصلے کرتی ہے وہ منوا تو لیے جاتے ہیں کیا واقعی ان کی ہجت عوام کے دلوں میں بیٹھتی ہے کیا عوام واقعی پولیس اور عدلیہ کی کارکردگی سے راضی ہے۔ کیا آج بھی پولیس اور عدلیہ انہیں کے لیے فعال نہیں جن کے پاس پیسہ اور طاقت ہے۔
غریبوں کے حقوق کی بات کی جاتی تو کیا ہم سمجھتے کہ غریب کش انسانوں کے ہاتھوں میں اختیار دے کر غریب لوگوں کی محرومیوں کا ازالہ کیا جا سکتاہے۔
ہم نے دودھ کی رکھوالی کے لیے بلوں کی فوج رکھی ہوئی ہے جو ہر روز سارا دودھ چٹ کر جاتے ہیں، بلے موٹے سے موٹے ہوتے جا رہے ہیں اور عوام اور ملک کی حالت کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔
خیر میں مسائل پر زیادہ بات کرنے کا قائل نہیں ہوں، ہمارے بچے بچے کو پتا ہے کہ ہمارے کیا مسائل ہے اور سیاست دانوں سے بہتری کا سن سن کر ہمارے کان پک گئے ہیں اور بہتری کا خواب ایک بیہودہ نعرہ بن کر ہی رہ گیا ہے۔ تبدیلی نہ ہمارے بڑوں نے دیکھی نہ ہم نے دیکھی اور نہ ہی یہ نظر آتا ہے کہ ہمارے بچے دیکھیں گے۔ کیوں کہ ابھی بھی ہم نے اپنی بنیادوں کو نظر انداز کر رکھا ہے۔
ہم ایک جذباتی قوم ہیں اور بنیادی طور پر شخصیت پسند ہیں۔ ہم لوگوں سے اپنی توقعات جوڑ جوڑ کر انہیں دیوتا بنا دیتے ہیں اور جب ہماری خواہشات کا دیوتا ہمیں کچھ دینے سے قاصر رہتا ہے تو ہم اس سے نا امید ہو جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ بس اب یہ عبرت کا نشان بھی اور نیست و نابود ہو جائے اور ہمیں کوئی اور مسیحا ملے جس کی پوچا کر کے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔
کاروباری دنیا میں اگر کوئی ادارہ ترقی کرتا ہے تو وہ ادارہ ترقی کرتا ہے جو اپنی بنیادیں بہتر کرتا ہے اور اپنے کاروبار کا ایک ماڈل بناتا ہے۔ اور پھر دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے کسی شخص کو اجازت ہی نہیں ہوتی کہ وہ ادارے کے بنیادی ماڈل سے ہٹ کر کچھ کر سکے، سسٹم یا ماڈل کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے والوں کو یا تو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے یا پھر پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ ٹھیک کام کرنے والے کے لیے آسانیاں ہی آسانیاں ہوتی ہیں اور غلط کام کرنے والوں کے لے مشکلات اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ وہ دوبارہ سے غلط کام کرنے کا نہیں سوچتا۔ مگر بیسک ماڈل ہی غلط ہو تو سب الٹا ہوتا ہے ہر غلط کام کرنے والے کے لیے آسانیاں ہی آسانیاں ہوتی ہیں اور ہر درست کام کرنے والے کے لیے پریشانیاں ہی پریشانیاں ہوتی ہے کیوں کہ جب سمت ہی غلط ہو تو پھر جتنا بھی لمبا صفر کیوں نہ کر لیں منزل کبھی نہیں آتی۔
ہمیں ایک بہترین ریفائن نیشنل ماڈل کی ضرورت ہے جسے تمام ادارے کو لازمی طور پر تسلیم کرنا پڑے اور اگر کوئی ادارہ یا فرد اس کے کسی بھی اصول کی خلاف ورزی کرے تو پھر اس کا جینا مشکل کر دیا جائے یہاں تک کہ اسے اپنی حالت درست کر کے واپس اسی ادارے میں آنا پڑے اور اس کے علاوہ اس کے پاس اور کوئی چارہ بھی نہ ہو۔
پوری دنیا میں جہاں جہاں گڈ گورننس نظر آتی ہے اس کے پیچھے بنیادی سٹرکچر یہی ہوتا ہے کہ قومیں اپنے اصول وضع کرتی ہیں اور پھر جو کچھ بھی ہو جائے اپنے اصولوں پر سودا نہیں کرتیں اور اگر کوئی اصولوں پر سودا کرنے کی کوشش بھی کرتے تو اس کی ہر کوشش رائیگاں جاتی ہے کیوں کہ سسٹم میں اس کی اجازت کی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔
اسی طرح جن ملکوں میں ماڈل بیس ڈیویلوپنمنٹس نہیں ہوتیں وہاں کا ہر بندہ ماڈل ہوتا ہے اور اس کی اپنی الگ ہی فلاسفی ہوتی ہے۔ یہ لوگ حب الوطنی کے نام پر اپنے دماغوں میں جو خلائی پلاو پکاتے رہتے ہیں اس کا نہ تو ان کو کوئی فائیدہ ہوتا اور نہ ہی کسی اور کو کوئی فائیدہ ہوتا ہے۔ یہ لوگ بجائے اس کے کہ انفرادی سطح پر ہی ملک کی یا اپنی کوئی خدمت کر پائیں صرف نظام کا رونا ہی روتے رہتے ہیں۔ ان کی قسمت رونے سے شروع ہوتی ہے اور رونے پر ہی ختم ہوتی ہے نہ کوئی جینے کا مقصد نہ ہی کوئی مرنے کا مقصد بس راستے ہی بدلتے رہتے ہیں جب کہ منزل کا تعین کبھی بھی نہیں کر پاتے۔
ماڈل بیس اکانومیز میں راستے بھی واضع ہوتے ہیں اور منزل بھی صاف ہوتی اس لیے ہر شخص با آسانی اس میں اپنا حصہ ڈالتا رہتا ہے اور ملک ترقی کی منزلیں طے کرتے جاتے ہیں۔ اور یہ نہ دیوانے کا خواب ہے اور نہ ہی فینٹسی ورلڈ ہے۔قوموں نے ایسے ہی ترقی کی ہے اور ایسے ہی ترقی کر رہی ہیں اور ایسے ہی ترقی کرتی رہیں گی۔ اور منہ دیکھنے والے منہ ہی دیکھتے رہیں گے نہ انہوں نے کچھ کیا ہے، نہ کررہے ہیں اور نہ ہی کر سکیں گے جب تک کہ یہ خود اپنی حالت ٹھیک نہیں کر لیتے اور اپنی منزل اور راستے ایک نہیں کر لیتے۔