ادب سرائے سے سرائے ادب تک
تحریر: میاں وقارالاسلام
 
مادرِ دبستانِ لاہور ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ کی ادبی تنظم ادب سرائے انٹرنیشل یقینا ایک ادبی نرسری کی حیثیت رکھتی ہے۔ ادب سرائے انٹرنیشنل کی مٹی نم بھی ہے اور ذرخیز بھی۔ اور جو رشتوں اسی مٹی سے پروان چڑھے ان میں ایک عجیب کشش بھی ہے اور خوشبو بھی۔ ڈاکٹر شہناز مزمل نے بطور میزبان جو محبت اپنے مہمانوں میں تقسیم کی ہے وہ اب ایک رشتہ میں تبدیل ہو چکی ہے۔
 
جیسی اپنائیت کا احساس ہمیں ادب سرائے انٹرنیشل سے ملا، ویسی ہی اپنائیت ہمیں ادب سرائے انٹرنیشنل سے مستقل جڑے ہوئے لوگوں میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ادب سرائے انٹرنیشنل سے جڑی ہوئی بہت سی شخصیات ایسی ہیں جن کے آفس یا جن کے گھر عرصہ طویل سے ادبی دوستوں کے لئے سرائے ادب کے طور پر منظر عام پر آتے رہے ہیں۔ اور جس طرح کی مہمان نوازی ہمیں ادب سرائے انٹرنیشل میں دیکھنے کو ملی کچھ اسی طرح کی مہمان نوازی ہمیں ادب سرائے انٹرنیشنل کے ساتھ جڑی ہوئی شخصیات کی طرف بھی دیکھنے کو ملی۔
 
ایسی ہی ایک شخصیت کا نام ہے جناب علی رضا احمد صاحب جو ادب سرائے انٹرنیشنل کے بہت پرانے ساتھیوں میں سے ہیں اور والٹن ائیر پورٹ کے فنانس ڈپارٹمنٹ کو ہیڈ بھی کرتے ہیں۔ان کا خاصہ ہے کہ یہ محبتوں کا قرض نہیں رکھتے، بلکہ یہ محبتوں کا قرض اور چڑھا دیتے ہیں۔ ان کی طرف جب بھی کوئی تقریب رکھی جاتی ہے تو تمام دوست بڑی خوشی اور گرم جوشی سے ان کے مہمان بننا چاہتے ہیں۔ اور کچھ ان کی شخصیت کا اثر کے کہ لوگ ان کی طرف کھچے چلے آتے ہیں۔شاید اس کی وجہ ان کا ہمیشہ بھرپور تعاون اور بھرپور خلوص ہے جس کی وجہ سے جو بھی ان سے مل کر جاتا ہے وہ ان سے دوبارہ ملنے کی خواہش ضرور رکھتا ہے ۔
 
والٹن فلائنگ کلب سے ہماری بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ تمام دوست ان سے ملنے اور انہیں سننے کے خواہش مند تو ہوتے ہیں، ساتھ ہی چھوٹے چھوٹے خوبصورت جہازوں کو دیکھنا، ان کے ساتھ تصویریں بنانا، اور اپنی معلومات میں اضافہ کرنا بھی مہمانوں کی دلچسپی کو مذید بڑھا دیتا ہے۔ان کی طرف رکھی گئی ادبی نشتیں ایک خوبصورت یاد بن کر رہ جاتی ہیں۔اور ان کا خلوص ان خوبصورت یادوں کو کبھی بھولنے نہیں دیتا۔
 
23 دسمبر 2021 ایسا ہی ایک خوشگوار دن تھا جیسے اپنی انفرادیت کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ جناب علی رضا احمد صاحب کی سربراہی، ڈاکٹر شہناز مزمل کی صدارت اور میاں وقارالاسلام کے تعاون سے اس دن ایک ادبی اور تحقیقی نشت کا اہتمام کیا گیا ۔
 
چار نئی کتابوں کی رونمائی بھی کی گئی جن میں ڈاکٹر شہناز مزمل کی نئی کتاب نورِ فرقان منظوم مفہوم قرانِ مجید، علی رضا احمد صاحب کی نئی کتاب خشک آنکھیں، محترمہ تسنیم کوثر کی کتاب سرگوشی اور ڈاکٹر سلطان محمود کی کتاب غذائی علاج شامل تھیں۔
 
اس نشت میں سال 2021 میں مکمل ہونے والے دو مقالوں پر تفصیلی بات کی گئی۔ ان دو مقالوں میں ایک مقالہ جناب علی رضا احمد پر “علی رضا بطور مزاح نگار” کے عنوان سے کیا گیا جسے محترمہ ہادیہ سحر نے مکمل کیا اور دوسرا مقالہ ڈاکٹر شہناز مزمل کی کتاب “موم کے سائبان” پر کیا گیا جیسے محترمہ ناہید ارشد نے مکمل کیا۔ اور ان دونوں طالبات کا تعلق لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی لاہور شعبہ اردو سے ہے۔دونوں طالبات نے بھی اس ادبی نشت میں شرکت کی اور اپنے اپنے مقالوں پر اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا اور مہمانوں کے سوالوں کے جوابات بھی دیے۔ وقارِ پاکستان لیٹریری ریسرچ کلاؤڈ کی ویب سائیٹ پر دونوں مقالوں کو نہ صرف شامل کیا گیا بلکہ طالبات کی حوصلہ افزائی کے لیے انہیں میاں وقارالاسلام بانی وقارِ پاکستان لیٹریری ریسرچ کلاؤڈ کی طرف سے اعزازی اسناد بھی پیش کی گئیں۔
 
ادبی و تحقیقی نشت کے آخری مرحلے میں سوالات اور جوابات کا سلسلہ بھی جاری رہا اور دورِ حاضر میں ادبی تحقیق کی اہمیت اور اس کے مستقبل کے حوالے سے بھی گفتگو جاری رہی۔ نشت کے اختتام پر تمام مہمانوں کا شکریہ بھی ادا کیا گیا اور انہیں فلائنگ کلب کا تعارف بھی دیا گیا اورتفصیلی وزٹ بھی کروایا گیا۔
 
ڈاکٹر سلطان محمود صاحب کی طرف سے تمام مہمانوں کی دعوت دی گئی کہ وہ نہ صرف ان کی تصنیف غذائی علاج سے فائدہ اُٹھائیں بلکہ ان کی دعوت پر غذا کے پر تکلف اہتمام کا فائدہ بھی اُٹھائیں۔ تمام مہمانوں کو پنجاب یونیورسٹی میں مدعو کیا گیا جہاں ان کی ملاقات پنجاب یونیورسٹی کے چیف لائبریرین اور ادب دوست شخصیت جناب ہارون عثمانی صاحب سے کروائی گئی۔ جناب ہارون عثمانی صاحب اور ڈاکٹر شہناز مزمل قائداعظم لائبریری میں کولیگ بھی رہ چکے ہیں۔ جناب ہارون عثمانی صاحب کا تعاون ہمیشہ بے مثال رہا ہے ، جب بھی ان سے ملاقات کی خواہش کی ، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہماری خواہش کی تکمیل نہ ہوئی ہو۔ جناب ہارون عثمانی صاحب نے بڑی دلچسپی سے تمام کتابوں کے حوالے سے سوالات کیے اور طالبات کے مکالوں کے حوالے سے بھی گفتگو کی اور طالبات کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ تمام نئی کتابوں کا سیٹ جناب ہارون صاحب کو بھی پیش کیا گیا اور پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری کے لیے بھی کتابیں فراہم کی گئیں۔
 
پنجاب یونیورسٹی سے فری ہونے کے بعد ڈاکٹر سلطان محمود کے ذیرِ اہتمام کھانے کی دعوت قبول کی گئی اور ان کی تصنیف “غذائی علاج ” بھی مہمانوں میں تقسیم کی گئی ۔ مہمانوں نے ڈاکٹر سلطان محمود صاحب کی دعوت ، کتابوں اور تعاون کا شکریہ ادا کیا۔