نیلمیت کا جہاں
 
تصنیف: نیلی آنچ
شاعرہ: محترمہ نیلم ملک
تحریر: میاں وقارالاسلام
 
“نیلمیت کی کھوج ” سے ایک دلچسپ آغاز “یہ” نیلی آنچ” ہے یا” نیلم پری “ہے، اسے مزید کھوجتے ہیں۔ بات کا آغاز شاعرہ کے ایک شعر سے کرتے ہیں، جس میں وہ اپنا تعارف نیلی آنچ اور نیلم پری کے نام سے کرواتی ہیں۔
 
یہ نیلی آنچ یا نیلم پری ہے
ہَوا کی تان پر جو جھومتی ہے
 
ان کے ہاں نیلمیت کا جو تصور پایا جاتا ہے اسے ان کی لفاظی سے محسوس کیا جا سکتا ہے، ایک باہر کی دنیا ہے جو ہمارے مشاہدے میں ہے اور ایک ہمارے اندر نیلمیت کا جہاں ہے جسے وہ اپنے مشاہدے میں لانا چاہتی ہیں۔ مثال کے طور پر ان کے ان شعروں سے ان کی اندرونی کیفیت جو کہ نیلی آنچ پر بیٹھی ہے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
 
میرے جیسا شعر کہنے کے لئے
میرے جیسی بےکسی ہے لازمی
ایک سائل کو ضرورت ہے مرے دل کی مگر
ہائے گھر والے سخاوت نہیں کرنے دیتے
 
ہم مقابل نہ آ سکے خود کے
تیرے پیچھے چھپا لیا خود کو
 
شاعرہ اپنے اندر چھپے نیلمیت کے جہاں اور باہر کی وسعتوں کو سمجھتی ہیں، کبھی کبھی وہ اپنے اندر ڈوبتی چلی جاتی ہیں اور نیلمیت ان کے لہو میں دوڑنے لگتی ہے۔وہ اپنے آپ کو اور اپنے اردگرد کے ماحول کو کیسے دیکھتی ہیں ، سنیئے
 
مِرا کمرا مثالِ دشتِ وَحشت
جہاں رَم خُوردہ ہرنی کھو گئی ہے
 
جب بھی سخن بساط بچھے
ہر شاطر کو مات کرو
 
لوگ اس کا خود پہاڑ بنا کر دکھائیں گے
لوگوں میں بیٹھ کر ذرا رائی پہ بات کر
 
اور پھر کبھی کبھی ان کی سوچ کائنات کی وسعتوں میں پرواز کرتے کرتے کھو جاتی ہے۔ ان کی سوچ نیلمیت کے سمندر سے اٹھتی ہے تو نیلے آسمانوں میں کھو جاتی ہے۔ ان کی سوچ کی پرواز کا ایک خوبصورت انداز دیکھیے۔
 
اُڑتا پھرتا ہے پنچھی کینوس پر
مصوّر کی عجب صورت گَری ہے
 
سوچ کی ڈور سلجھی بھی کیا
اس کا اگلا سِرا ہی نہیں
 
باہر سے جب کھولتے ہیں تو کھلتا ہے بس دروازہ
اندر سے کھل جائے اگر تو سارا گھر کھل جاتا ہے
وسعت ہو یا پھر گہرائی دونوں ہی ہمیشہ سے انسان کی کمزوری رہی ہیں۔ وسعت آسمانوں کی بھی ہو سکتی ہے اور جذبات کی بھی، گہرائی سمندر کی بھی ہو سکتی ہے اور دل کی بھی۔ دکھ بھی گہرے ہوتے ہیں اور احساسات بھی، انسان گہری سوچ میں ڈوبتا بھی ہے اور سوچ وسیع بھی ہوتی ہے۔ اپنے جذبات اور احساسات کو وہ کس طرح بیان کرتی ہیں ،ان کا انداز دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
 
کبھی کبھی تو ہندسے ہانپنے لگتے تھے
ایسے سانسیں گن گن عمر گزاری ہے
 
مجھ پہ سایا نہ ڈالیے اپنا
مجھ کو رہنا ہے سائباں سے پرے
 
یہ اللہ تعالی کی ہی بادشاہی جس میں انسان جتنا سوچتا چلا جاتا ہے اس جہان کی وسعتیں اور گہرائیاں مزید بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں۔ دن گزرتے گئے سال گزرتے گئے صدیاں گزرتی گئیں زمانے گزرتے گئے ہزاروں نسل آباد ہوئیں پھر برباد بھی ہوئیں اور ان کی جگہ نئی نسلیں بھی لیتی ہی چلیں گئیں۔ اور یوں یہ سلسلہ جاری رہا۔ دن رات کے آگے پیچھے آنے جانے میں اللہ کی نشانیاں ہیں شاعرہ قدرت کی ان نشانیوں کو کیسے دیکھتی ہیں۔
 
‏جہاں پر دھوپ ” دن ” لکھ کر گئی تھی
وہاں اب رات نے کالک مَلی ہے
 
‏سوکھے جھیل تو ایک مکان بنانا ہے
پربت ہٹے تو اک دروازہ کھولوں میں
 
چشمِ تر لے کے اگر گھر سے نکل جاؤں میں
سب بدل جائے جو منظر سے نکل جاؤں میں
 
بہت بڑے بڑے عالم فاضل لوگ جنہوں نے اپنے علم سے جانے کیا کیا ایجاد کیا اور جانے کیا کیا تحقیق کر ڈالا اور پھر تحقیق کرتے کرتے ان کی کہانی بھی مٹ گئی، نہ ان کا اپنا وجود رہا ، نہ ان کا نام رہا اور نہ ہی ذکر کرنے والوں میں ان کے ذکر باقی رہے ،یہاں تک کہ ان کے زمانے بھی کہیں دفنا دیئے گئے۔ یہی زندگی ہے اور یہی زندگی کا تسلسل ہے ،اسی تسلسل کو انہوں نے کچھ اس طرح قلم بند کیا ہے۔
 
گزارا اِس پہ بھی کر تو رہے ہیں
مگر تو ہی بتا یہ زندگی ہے
 
تیری کھیتی پہ میرا گزارا نہیں,بھوک مٹتی نہیں
جی میں آتا ہے اب بیچ کھاؤں تجھےمختصر زندگی
 
صرف وہ باقی رہا جسے اللہ نے چاہا کہ باقی رہے اور نشان بھی باقی رکھے تو عبرت کے نشان اور اپنی حکمت کی علامتیں۔ جسے مٹانا چاہا مٹا دیا اور جسے ٹھہرانا چاہا ٹھہرا دیا اور اور بات کو بدل کر نئی بات لانی چاہی تو وہ بھی کیا، دنوں کے آگے پیچھے آنے جانے میں فکر کرنے والوں کے لیئے نشانیوں پر نشانیاں رکھ دی گئیں تاکہ انسان سوچے اور سمجھے تاکہ ہدایت حاصل کرے۔ ذرا دیکھیں کہ قدرت کی ان نشانیوں کو انہیں نے کس طرح سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔
 
طلب میں قطرہء نیساں کی’ بےدَم
سرِ ساحل کوئی سیپی پڑی ہے
 
ولعصر زمانہ مرے مطلب کا نہیں ہے
یہ آئینہ خانہ مرے مطلب کا نہیں ہے
 
آج کا انسان جب کل کے انسان کو کھوجتا ہے تو اسے ایک سے ایک چیز اس کے مشاہدے میں آتی ہے اور اسے حیران کیئے جاتی ہے۔ جو علم حاصل کر کے کھو دیا گیا صرف اسی کو سمیٹنا ممکن نہیں۔ انہوں نے سخن کی وادی میں میسر پھولوں سے کس طرح سے خوشبو سمیٹی ہے اور اپنے شعروں کو کس طرح سے مہکایا ہے، وہ ان کی غزل کاری ٹھیک ٹھیک بیان کر رہی ہے۔
 
میسَّر ہے سخُن دانوں کی صُحبت
تبھی اچھی غزل کاری ہوئی ہے
 
ہم تو چلتے رہے رہگزر کی طرح
سنگِ رہ کی طرح زندگی تھم گئی
 
اور جو علم کے خزانے ابھی تک چھوئے بھی نہیں گئے وہ بھی بے شمار ہیں۔ اللہ کی بادشاہی ہے کہ اس کی بادشاہت کا ذرہ ذرہ اس کی طاقت میں محدود ہے اور یہ بھی اللہ کی بادشاہت ہے کہ اس نے انسان کے مشاہدے کے ہے بہت سی چیزوں کو لامحدود کر دیا تاکہ انسان فکر کرے۔ ان کے ہاں کس طرح کی فکر اور سوچ پائی جاتی ہے ذرا دیکھیے۔
 
اوّل اوّل خود بنیاد میں ہوتی ہوں
پوری جب تعمیر کروں تُو بنتا ہے
 
کھل گیا رات کا در، ذات کا باقی ہے ابھی
کچھ سفر اور بھی ظلمات کا باقی ہے
 
اللہ قران میں فرماتا ہے کہ آسمانوں کی طرف نظر دوڑاو کیا تم اس میں کوئی شگاف دیکھتے ہو، پھر اللہ فرماتا ہے کہ ہر بار تمہاری نظر تھک کر واپس آ جائے گی۔ پھر اللہ فرماتا ہے سیاروں کی منزلوں کی قسم اور یہ سب سے بڑی قسم ہے اگر تم سمجھو! انسان کتنا بے بس ہے اس کا اظہار ان کے اس شعر سے ہوتا ہے۔
 
اک شکستہ حویلی کی دیوار پر
وقت چلتا رہا اور گھڑی تھم گئی
 
بہت سی آیات ہیں جو انسان کی نظر میں ایک لامحدود بادشاہت کی عکاس ہیں مزید یہ آیات یہ بھی بتاتی ہیں کہ کس طرح اتنی بڑی کائنات کو اللہ تعالی سنبھالے رکھتے اور طرح ایک ہلکی سے جنبش سے یہ پوری کائنات تباہ ہو سکتی ہے۔ تو ایک توازن ہے ایک اندازہ ہے جس کے مطابق ہر چیز اپنا اپنا کام کر رہی ہے۔ وہ اللہ کے مقرر کیئے ہے اندازوں کو سمجھتی ہیں زندگی اور موت کی کشمکش ان کے ہاں پائی جاتی ہے۔
 
عجب سااک خواب دیکھ کر آنکھ کھل گئی ہے
ہم اپنے مرنے پہ روئے, لیکن مرے نہیں تھے
 
اللہ اتنی بڑی بادشاہت کا مالک کی جس کی بادشاہی میں ہمارا وجود ریت کے ان گنت چھوٹے چھوٹے ذروں سے بھی چھوٹا ہے اسی ذرے کو اللہ نے یہ شرف بھی بخشا کہ اور اس کائنات کے بہت سے رازوں کو مسخر کر سکتا ہے اور اسی ذرے کو اتنا کمزور بھی بنایا کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی کچھ نہیں جانتا۔ زندگی کتنی مختصر ہے اور کتنی تیزی سے گزر جاتی ہے اس کیفیت کو دیکھیے۔
 
چار دن کی ہے مہماں مرے پاس تو مجھ سے روٹھا نہ کر
ناز تیرے اٹھاؤں ، مناؤں تجھے مختصر زندگی
 
انسان کی پیدائش بھی ایسے ہی ہے ایک حکم سے انسان کے وجود میں روح پھونک دی جاتی اور پھر جلد دوسرا حکم ہوتا ہے اور جسم سے روح کو الگ کر دیا جاتا ہے اور پھر ایک دن آئے گا جب روحیں اپنے جسموں کو لوٹا دی جائیں گی۔ اگر کوئی سمجھنا چاہے تو انسان کی حقیقت بس اتنی سی ہے۔ جیسے کہ وہ کہتی ہیں۔
 
مستقبل تالاب ہے جس کے پانی میں
اندیشوں کے کالے ہنس نہاتے ہیں
 
انسان کو شرف ہی اسی چیز کا بخشا گیا ہے کہ وہ سوچ سکتا ہے، غور کر سکتا ہے، فکر کر سکتا ہے، انسانوں کی شکلیں مختلف ہیں، رنگ اور نسل مختلف ہے زبانیں مختلف ہیں، دل مختلف ہیں دماغ مختلف ہیں مزاج اور انداز بھی مختلف ہیں اور یہ سب اس لیئے ہیں کہ انسان سوچے سمجھے۔ قدرت کے یہی پہلو ان کی سوچ اور فکر میں نظر آتے ہیں۔
 
ہے اِس میں طولِ شام ِ غم کا قِصَہ
جو یہ بالِشت بھر کی ڈائری ہے
جاننے اور پہچاننے کا یہ سفر روز اول سے جاری ہے انسان نے بہت کچھ جانا ہے مگر پھر بھی بہت ادھورا ہے اسی ادھورے پن کو پورا کرنے کے لیے کوئی تصویروں میں رنگ بھرتا ہے، کوئی کہانیوں میں کرداروں کی تشکیل کرتا ہے کوئی نظموں اور غزلوں میں اپنے احساسات بیان کرتا ہے، کوئی تجزے کرتا ہے کوئی تجربے کرتا ہے، کوئی سمندر کی تہہ میں اترنا چاہتا ہے کوئی آسمانوں کی بلندیوں میں جانا چاہتا ہے۔ عورت ہوتے ہوئے وہ عورتوں کے مسائل پر گہری نظر رکھتی ہیں اور محسوس کرتی ہیں اسے کھل کر بیان بھی کرتی ہیں جیسے کہ
 
بغاوت کو جنم لیتے ہی زندہ گاڑ دیں صاحب
یہ لڑکی بول اٹھی اک بار تو ہر بار بولے گی
 
چپ رہنے میں ہے نادانی بول پڑیں
وقت نے اور ہم نے اب ٹھانی بول پڑیں
 
دوسری طرف کوئی ستاروں پر کمند ڈالنا چاہتا ہے کوئی بیماریوں کی تشخیص کرتا ہے کوئی بیماریوں کے علاج دریافت کرتا ہے کوئی تیز ترین گاڑیاں اور جہاز بناتا ہے کوئی بلند و بالا عمارتیں بناتا ہے اور کوئی طرح طرح کے پھل اور ترکاری پیدا کرتا ہے جو جانوروں کی نسل بڑھاتا ہے اور یوں اس کی اپنی نسل ختم ہوتی ہے اور اس کا اختیار اگے منتقل ہو جاتا ہے۔ ایک نسل کے اختیار کو اگلی نسل میں منتقل ہونے کو وہ کیسے دیکھتی ہیں سنیئے۔
وہاں تھا آج گل کِھلنے کا امکاں
جہاں کل رات ہی بجلی گری ہے
 
پھر نئی نسل اپنا آغاز اپنے انداز سے کرتی ہے، باوجود اس کے کہ پچھلی نسل نے اس کے لیے بہت کچھ چھوڑا ہوتا ہے مگر نئی نسل جانتی ہے کہ اس کے آگے جہان اور بھی ہیں۔ نئی نسل کو درپیش مسائل کا اظہار وہ کچھ اس طرح کرتی ہیں
 
یہ کوئی عشق تو نہیں حضور
جاب ہے ، مسئلے تو ہوں گے ہی
 
شاعرہ محترمہ نیلم ملک بھی نئی نسل کی ترجمان ہیں۔ اور قلم کے ذریعے اپنے عہد کی بھرپور عکاسی کرتی نظر آتی ہیں۔ باوجود اس کے کہ لکھنے والوں نے بہت کچھ لکھا ہے، وہ جانتی ہیں کہ ابھی اس کے آگے جہان اور بھی ہیں۔ اور اسی بات کا اظہار ان کی شاعری سے ہوتا ہے کہ وہ دنیا کو کس حد تک جاننے کی خواہش رکھتیں ہیں اور وہ اپنے عزم میں کتنی ثابت قدم نظر آتی ہیں۔
 
ہو جسے چست اسے مفت, سو لے جا پیارے
میرے پیروں میں تو پوری نہیں آئی دنیا
 
شاعرہ محترمہ نیلم ملک نے اپنی تخلیق “نیلی آنچ” کے ذریعے “نیلمیت کا جہاں” ڈھونڈنے کا آغاز کیا ہے نیلی آنچ کی شدت اس بات کا اشارہ کرتی ہے کہ یہ ایک مضبوط آغاز ہے۔ مجھے امید ہے کہ “نیلمیت کا جہاں” روشنیوں کا ایک جہاں ہے جو ان کا منتظر ہے۔ اور یہ روشنی ان کے قلم سے ضرور پھیلے گی کیوں کہ وہ لوگوں کے اندر چھپے ہوئے خوف کو سمجھتی ہیں اور اپنے قلم کے ذریعے لوگوں میں ان کے اس ڈر کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔
 
اپنے اندر کے کسی خوف میں جکڑے ہوئے لوگ
دوسروں کو بھی بغاوت نہیں کرنے دیتے
 
انہیں وقت کے صحراؤں سے اٹھتی ریت کی تپیش کا بھی اندازہ ہے اور وہ پھولوں کی نزاکت کو بھی سمجھتی ہیں۔
 
صحراؤں کی ریت سی تپتی پوریں اس صحرائی کی
اس کے چھو جانے سے نازک پھول کا زر کھل جاتا ہے
 
کہنے کو ابھی بہت کچھ ہے، لکھنے کو ابھی بہت کچھ ہے، یہاں ہر چیز لا محدود ہے مگر وہیں انسان کی بہت سی حدیں ہیں انسان جتنی بھی رکاوٹیں عبور کرتا جائے جتنی بھی حدوں سے نکل جائے رہتا اسی دائرے میں جو دائرہ جو دائرہ اس کے رب نے اس کے لیئے مقرر کر دیا ہے۔
 
اب سی دائرے میں کون کتنی محنت کرتا ہے کس طرح سے اپنے آپ کو منواتا ہے اور کس طرح سے جو شرف اللہ تعالی نے اسے عطا کیئے ہیں ان کا استعمال کرتا ہے اور کس قدر اپنے لیئے اپنے اردگر کے لوگوں کے لیئے راہیں ہموار کرتا ہے قدرت نے اس بات کی قدرت ہر انسان کو دی ہے۔ ان کی محنت اور لگن یہی بتاتی ہے کہ جو صلاحیتیں قدرت نے انہیں عطا کی ہیں وہ ان کا بھرپور استعمال کریں گی
فصیلِ اُفق سے پرے جائیں گے ہم
ہمیں روکنا مت، ارے جائیں گے ہم
 
محترمہ نیلم ملک صاحبہ کی اپنے کام سے لگن، اپنے آپ کو، اسی کائنات کو اور اپنے رب کو جاننے میں دلچسپی، حالات اور واقعات پر گہری نظر، پیسے ہوئے طبقوں فکر، مجبور لوگوں سے ہمدردی، ظلم اور جبر کے خلاف آواز اور خاص کر کے ان کی دیوانگی اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ بہت جلد اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب ہو جائیں گی اور انہیں ان کے کام کی وجہ سے ایک منفرد پہچان مل جائے گی۔
 
مجھے انکار اُس کی شاعری سے
جو شاعر ہو کے دیوانہ نہیں ہے
 
ڈھیروں دعاؤں اور بہت سی نیک خواہشات کے ساتھ ان کی کامیابیوں کا منتظر۔
 
میاں وقارالاسلام، شاعر، ادیب، کالم نگار، مرتب، کارپوریٹ ٹرینر، بزنس کنسلٹنٹ
پرنسپل کنسلٹینٹ، مارول سسٹم، ڈائیریکٹر آپریشنز، نیازی گروپ
فاونڈر، وقار پاکستان، ایڈوائزر ادب سرائے انٹر نیشنل