تصنیف: قرضِ ہنر
شاعر: محترم محمد مختار علی
تحریر: میاں وقارالاسلام
صبر اور شکر کا مطلب سمجھنے والا انسان ایسے انسانوں سے بہت مختلف ہوتا ہے جو صبر اور شکر سے ناواقف ہوتے ہیں۔ صبر اور شکر کرنے والا انسان ہر حال میں خوش رہتا ہے، مصیبتوں اور پریشانیوں میں وہ اپنے رب کے سامنے شکوے اور گلے لے کر نہیں بیٹھتا بلکہ اپنے رب سے یہ دعا کرتا ہے کہ وہ اسے اور زیادہ صبر کرنے کی توفیق دے اور پھر شکر کرتے ہوئے مشکل سے مشکل وقت بھی گزار لیتا ہے۔
جو لوگ صبر اور شکر نہیں کرتے ان کی زبانوں پر ہمیشہ گلے ہی رہتے ہیں۔ انہیں کچھ مل جائے تو بھی پریشان اور کچھ چھن جائے تو بھی پریشان۔ اچھے سے اچھے حالات میں بھی یہ اور اچھے کے خواہاں رہتے ہیں ۔ یعنی انہیں جتنا ملتا جائے یہ اتنا ہی منہ کھولتے جاتے ہیں اور ان کی خواہشیں کبھی ختم نہیں ہوتیں بلکہ وقت کے ساتھ بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں۔ اور جیسے یہ نا شکرے اپنے برے حالات میں تھے ایسے ہی نا شکرے یہ اچھے حالات میں بھی رہتے ہیں۔ اور انسان کی لامحدود خواہشیں ہی اس کی دنیا اور آخرت کو برباد کرنے کے لیے کافی ہوتی ہیں۔
زندگی بہت سے لوگوں کے احسانات کے سائے میں پرورش پاتی ہے، کبھی ماں اورباپ کی محبتوں کے سائے تلے، کبھی اساتذہ اور اپنے محسنوں کے سائے تلے، کبھی دوستوں اور قرابت والوں کے سائے تلے۔ انسان کو ایک دوسرے کی ضرورت پڑتی رہتی ہے، کبھی انسان کسی پر احسان کرتا ہے تو کبھی کوئی اس پر احسان کرتا ہے۔ کبھی یہ احسان چاہتے ہوئے کئے جاتے ہیں کبھی یہ لاعلمی میں ہو جاتے ہیں۔ انسان اچھے وقت کے دوستوں کو تو شاید بھول جائے ،مگر ایسا کم ہوتاہے کہ برے وقت کے ساتھیوں، جو کہ مشکل میں بھی رفیق رہتے ہیں ، انہیں کبھی بھلا دیا جائے۔
پھر انسان کے ظرف کی بات ہے، چاہے تو کسی کا چھوٹے سے چھوٹا احسان بھی ساری عمر یاد رکھے یا پھر چاہے تو بڑے سے بڑا احسان بھی بھلا دے اور اپنے محسنوں سے لاتعلق ہو جائے۔ انسان کے کردار کا پتہ ہی اسی بات سے چلتا ہے کہ وہ اپنے محسنوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے۔ اپنے محسنوں کو بھلا دینے والوں کا انجام بھی بہت برا ہوتا ہے ، اکثر آخر میں اکیلے رہ جاتے ہیں ، اور اگر اکیلے نہ بھی رہے تو بھی کسی کے دل میں جگہ بنانے کی صلاحیت سے محروم ہی رہتے ہیں۔
محترم محمد مختار علی صاحب نہ صرف ایک پیارے دوست ہیں بلکہ ایک انتہائی نفیس انسان بھی ہیں۔ بہت اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے ماہر کیلی گرافر کے طور پر بھی اپنے آپ کو ملکی اور بین القوامی سطح پر خوب منوایا ہے۔ باوجود بہت سی کامیابیاں سمیٹنے کے ان کی شخصیت میں عاجزی اور انکساری کی پہلو صاف دیکھائی دیتا ہے۔ یہ نہ صرف اپنے فن اور ہنر سے محبت کرتے ہیں بلکہ اپنے اردگرد کے لوگوں سے بھی محبت کرتے ہیں، اپنے محسنوں کی قدر کرتے ہیں اپنے دوستوں کی بھی قدر کرتے ہیں ۔ شاید ان کی شخصیت کا یہی خوبصورت اور منفرد پہلو انہیں نئے ملنے والوں کے دلوں میں اتار دیتا ہے۔ ان کے ساتھ گزارے ہوئے چند لمحے صدیوں کی مثال لگتے ہیں۔
قرضِ ہنر ان کی شاعری کی منفرد کتاب ہے، ان کا اندازِ بیاں بتاتا ہے کہ انہوں نے اپنے رب سے، اپنے رسول سے، اپنے وطن سے، اپنی مٹی سے ،اپنے پیاروں سے، اپنے استادوں سے اور اپنے محسنوں سے کس قدر محبت کی ہے۔ ان کی شخصیت اپنی روح پر بہت سے محسنوں کا قرض اُٹھائے پھرتی ہے اور وہ اسی قرض کو اپنی شاعری اور خطاطی کی شکل میں اتارتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ انسان محبتوں کا براہ راست قرض تو نہیں اتار سکتا مگر وہی محبت مختلف لوگوں میں تقسیم کر کے اپنے مقروض ہونے کی کیفیت کو کم ضرور کر سکتا ہے۔
قرضِ ہنر کے نام سے محترم محمد مختار علی صاحب کی یہ منفرد تصنیف ایک احساس رکھنے والے دل کی عکاس ہے۔
قرضِ ہنر سے خوبصورت انتخاب
اک صدا ہے جو مری چُپ کا بھرم رکھتی ہے
اک خموشی ہے جو شامل مری گفتار میں ہے
اس بار بھی احباب نے مل کر مرے حق میں
وہ راہ نکالی جو ہزیمت سے بھری ہے
خیال ِ گردشِ دوراں ہو کیا اُسے کہ جو شخص
گرہ میں ماں کی دُعا باندھ کر نکلتا ہے
دست ِ معذور میں تعمیر کا گُن ہوتا ہے
ہائے کیا چیز یہ آوازہ کُن ہوتا ہے
زلفوں میں اس کی پھول سجائو اسے ہنسائو
مختار کچھ تو دعوت ِ موسم کیا کرو
طواف و سعی کرلیتا ہوں ماں کو دیکھ کر میں
مرے نزدیک ہی اُس نے حرم رکھا ہوا ہے
خارج نہ کرو حلقہ ٗ احباب سے ہم کو
شامل صف ِ اعدا میں میاں ہم نہیں ہوں گے
کوئی شاداں ہو کہ مُتعب ، نہیں دیکھا کرتی
موت آتی ہے تو منصب نہیں دیکھا کرتی
ہم ابھی خود کو ادھوار ہی کہیں گے مختار
ابھی اک یار ہمارا صف ِ اغیار میں ہے
یہ اور بات میں راہ ِ دگر پہ ہوں لیکن
مرا قدم روشِ کارواں سے دور نہیں
لطف اونچی اڑان میں بھی نہیں
اب کشش آسمان میں بھی نہیں
خواب اک تھا کوئی آئینہ نما ٹوٹ گیا
میرا چہرہ مرے ہاتھوں سے گرا ٹوٹ گیا
بہت دنوں سے کوئی مجھ کو یاد آیا نہیں
اگرچہ میں نے کسی شخص کو بھلایا نہیں
جیسے اُس سمت کوئی ڈوب رہا ہو مختار
یوں قدم جانب ِ طوفان مجھے کھینچتے ہیں
رنگ و آہنگ بھی ہوتے ہیں وہاں دست دراز
اُس پری زاد کا جب باب ِ کرم کھلتا ہے
اُتر جائو سبھی اے غمزدو آنکھوں میں اُس کی
کوئی بھی لوٹ کر جن سے اداس آتا نہیں ہے
کون جانے میں خموشی ہوں کہ آوازہ ہوں
شاید اک خواب کا بکھرا ہوا شیرازہ ہوں
سب اپنے اپنے خدائوں میں گھر گئے ہیں یہاں
کہیں سے کوئی ہمارا خدا تلاش کرو
آنکھ میں پھوٹتے رہتے ہیں ستارے مختار
کون ہے جو نظر انداز ہوا ہے مجھ میں
میں ہوں اک دور کے قصبے کا مسافر مختار
پہروں چلتا ہوں تو پھر پختہ سڑک آتی ہے
ڈھاپنا کفن نے جسم مگر اختصار سے
پائوں بڑھے تو کاٹ کے کم کردیے گیے
مجھے خود اپنی حرارت ہی زندہ رکھتی ہے
میں اپنی ذات پہ اپنا بدن پہنتا ہوں
میں جب بھی راہ ِ معین سے ہٹ کے چلتا ہوں
تو مجھ پہ اک نیا رستہ طلوع ہوتا ہے
یقینا ان کا یہ پیغامِ محبت پڑھنے والوں کے دلوں میں اترتا چلا جائے گا۔ محترم محمد مختار علی صاحب کے لیے دعائیں اور نیک خواہشات اللہ انہیں ہر میدان میں بھرپور ترقی عطا کرے۔
دعا گو! میاں وقارالاسلام
پرنسپل کنسلٹینٹ ، مارول سسٹم
www.marvelsystem.com
فاؤنڈر ، وقارِ پاکستان لیٹریری ریسرچ کلاؤڈ
www.waqarpk.com