وہ عشق ہی کیا جو قلندر نہ کر دے
تصنیف: عشق قلندر کر دیتا ہے
شاعر: جناب سلمان جاذب صاحب
تحریر: میاں وقارالاسلام
“عشق قلندر کر دیتا ہے” جناب سلمان جاذب صاحب کی یہ خوبصورت تخلیق ان کے جذبات کی عکاس ہے، وہ خوبصورت جذبات جو وہ اپنے چاہنے والوں کے بارے میں رکھتے ہیں، اور وہ خوبصورت جذبات جو وہ اپنے پیدا کرنے والے کے بارے میں رکھتے ہیں۔ اور وہ اپنے آپ کو انہیں خوبصورت جذبات کی جنت میں رکھنا چاہتے ہیں جن کی طرف وہ اشارہ کرتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں۔
خدا کا شکر ہے کوئی بچھڑ کر لوٹ آیا ہے
زمانے بھر کےافسانے بھی اپنے ساتھ لایا ہے
موضوع کی گہرائی میں جانے سے پہلے جناب سلمان جاذب صاحب کا مختصر تعارف شامل کر لیتے ہیں۔ تاکہ موضوعِ بحث شخصیت کا تعارف بھی کھل کر سامنے آ جائے۔ جناب سلمان جاذب صاحب آج کل عرب امارات میں مقیم ہیں جب کہ ان کا تعلق پاکستان سے ہے اور ان کا ابائی شہر سرگودہ ہے۔ شعبہ صحافت سے منسلک ہیں، اور ادبی و ثقافتی سرگرمیوں میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔بطور بانی و صدر مُسفرہ انٹرنیشنل (ادبی و ثقافتی تنظیم)، ایونٹ سیکرٹری پاکستان جرنلسٹ فورم یو اے ای (صحافتی تنظیم)، میڈیا سیکرٹری گلف اردو کونسل (آدبی تنظیم) اپنی گراں قدر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ پاکستان ایسیوسی ایشن دبئی اور پاکستان سوشل سینٹر شارجہ کے باقاعدہ ممبر ہیں۔علاوہ ازیں بطور ایڈیٹر ہفت روزہ اردو اخبار یو اے ای اور مدیرِ اعلیٰ آن لائن اردو ڈآٹ کام ادبی سائٹ،سی ای او مرچ مسالہ انٹرٹینمنٹ ای ٹی وی اینڈ فیشن میگزین کے بھی اپنی خدمات سر انجام دیتے چلے آ رہے ہیں۔
[www.onlineurdu.com] & [www.mirchmasala.tv]
ان کی پانچ کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں جن میں تیری خوشبو (شاعری)، سورج ڈوبا نہیں کرتے (فن و شخصیت)، قتلِ گل (تحقیق)، عشق قلندر کر دیتا ہے (شاعری) اور تتلی دل پر اُترے گی (نظمیں) شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی ایک کتاب جو کہ زیرِ طبع ہے، اس کا نام ہے،
“Glittering Journey”
جناب سلمان جاذب صاحب کو پچاس سے زیادہ قومی اور بین القوامی اعزازات سے نواز جا چکا ہے جن میں سرٹیفکیٹس ، گولڈ میڈز اور شیلڈز وغیرہ شامل ہیں، اہم اعزازات میں شارجہ بک اتھارٹی ، گلوبل ویلیج دبئی ، ایمبیسی آف پاکستان یو اے ای ، ایمبیسی آف پاکستان اومان اور چیمبر آف کامرس اسلام آباد سے ملنے والے اعزازات شامل ہیں۔اس کے علاوہ جناب سلمان جاذب صاحب کی وسیع تر ادبی خدمات بہت کچھ شامل ہے جیسے کہ، ٹی وی اور فلم انڈسٹری کے روشن ستاروں کے انٹرویوز، معروف ادبی شخصیات کے ساتھ پروگرامز، اور کاروباری اور سماجی سرکل کی اہم شخصیات کے ساتھ سیشنز اور انٹرویوز۔ ان کی خدمات کو ملک اور بین القوامی سطح پر قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ تعارف میں ابھی بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے مگر مضمون کی مناسبت کے لحاظ سے ان کا یہ مختصر تعارف یہاں شامل کیا گیا ہے۔
فطری محبت انسان کی پہچان ہے، انسان کے وجود سے اگر محبت نکال دی جائے تو انسانیت بھی نکل جاتی ہے، اور جب انسانیت کی بات آتی ہے تو محبت اس کا لازمی جذو سمجھی جاتی ہے۔ کسی کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنا، کسی کی پریشانی کو اپنی پریشانی سمجھنا، اور دوسرے کی خوشی میں خوش ہونا یہی انسانیت ہے۔
اس ہنسنے ہنسانے سے نہیں جائے گا کچھ بھی
اس میں تو نہیں کوئی بھی نقصان میری جان
حیوانیت ایسا لفظ ہے جسے انسانیت کے متضاد لفظ کے طور پر دیکھا جا سکتاہے، کسی سے نفرت کرنا، کسی کو تکلیف میں دیکھ کر خوش ہونا، کسی کو خوش دیکھ کر حسد کرنا یہ ساری باتیں انسانیت کے خلاف ہیں اور حیوانیت کے دائرے میں آتی ہیں۔
رہتے ہیں وہ مرجھائے ہوئے موسمِ گل میں
جو لوگ کبھی ہنستے ہنساتے نہیں جاناں
فطری طور پر انسان محبت کا پیکر ہے، مگر انسان پر حیوانیت کا رنگ بھی چڑھتا ہے جب وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ ایک انسان ہے اور مادہ پرستی اس کے دل میں گھر کرنے لگتی ہے، خود غرضی اس کی حیوانیت کو بڑھاتی رہتی ہے اور پھر اسے دوسرے کی خوشی میں غم محسوس ہوتا ہے اور دوسرے کے غم میں خوشی محسوس ہوتی ہے۔
گرچہ لگتا ہے کم بدلتی ہے
زندگی دم بہ دم بدلتی ہے
انا پرستی اور اپنے آپ سے اندھی محبت انسان کو یہ بھی بھلا دیتی ہے کہ کبھی وہ ایک انسان تھا۔ اور اگر انسان اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہی چلا جائے تو پھر ایک دن ایسا بھی آ جاتا ہے کہ ایسے جانوروں سے بھی گئی گزری مخلوق سمجھا جاتا ہے۔
آئینے کو بنانے والا بھی
آئینہ دیکھتے ہی ڈر گیا ہوگا
اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے، گویا گدھے ہیں بدک جاتے ہیں یا پھر یہ بھی کہ گویا کتے ہیں کہ زبان نکالے رکھتے ہیں، اب تم انہیں کچھ دے دو تو بھی زبان نکالے رکھیں اور کچھ نہ بھی دو تو بھی زبان نکالے رکھیں۔ ایسے ہی لوگ فرعون بنتے ہیں اور شیاطین کی پیروی کرتے ہیں اور پھر نشانِ عبرت بنا کر چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔
عکس مسمار کرتا جاتا ہوں
روز اک آئینہ بناتا جاتا ہوں
وہ محبت ہی کیا جو بے لوث نہ ہو، وہ محبت ہی کیا جو کسی کی خوشی میں خوش نہ ہو، اور وہ محبت ہی کیا جو کسی کے غم میں غمگین نہ ہو۔ اور کبھی ایسا ہونے لگے تو پھر وہ محبت نہیں رہتی وہ ایک خود غرض جذبے میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
یوں تو گھوما ہوں ایک دنیا میں
اپنی جانب نہیں چلا اب تک
محبت ایک فطری عمل ہے، ہر انسان اپنے ماں اور باپ سے محبت کرتا ہے اور ساتھ ہی ہر شخص اپنی ذات کا نفع نقصان اور عزت نفس بھی دیکھتا ہے۔ اسی لیے انسان کو جب محبت ملتی ہے تو وہ فطری طور پر محبت کرتا ہے اور جب نفرت ملتی ہے تو فطری طور پر نفرت بھی کر بیٹھتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ انسان کی رہنمائی کرتا ہے اور اسے خود پر قابو پانے کی تلقین کرتا ہے۔
ترے الفاظ تیرے ہیں تو ہوں گے
ترا لہجہ ترا لہجہ نہیں ہے
ہم سب اپنے ماں باپ سے فطری محبت کرتے ہیں، مگر جب ہم قران پڑھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے احکامات ہماری نظر سے گزرتے ہیں تو یہ محبت صرف فطری محبت نہیں رہتی بلکہ یہ احکامِ الہیٰ کی پابند ہو جاتی ہے۔
فطری محبت میں ہم سے غلطی اور کوتاہی ہو سکتی ہے، یعنی اگر کبھی ماں باپ ہم پر سختی کریں تو شاید ہم بھی اگے سے فطری عمل دے بیٹھیں جو کہ اکثر دیکھنے کو ملتا ہے۔ مگر جب ہم احکاماتِ الہٰی کے پابند ہوتے ہیں تو ہم کسی صورت میں بھی اُف تک نہیں کرتے کیوں کہ ہم سمجھنے ہیں کہ ماں باپ کی نافرمانی سے رب ناراض ہوسکتا ہے۔
یقیناَ خوشنما ہے دیکھنے میں
تمہارا شہر گھر جیسا نہیں ہے
اس لیے نہ ہم صرف ماں باپ کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ یہ بھی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے کسی عمل سے رب ناراض نہ ہو جائے۔
نظروں سے کسی کو بھی گراتے نہیں جاناں
ہر بات رقیبوں کو بتاتے نہیں جاناں
محبت کی انتہائی کیفیت عشق کی طرف لے جاتی ہے، اور باعمل عاشق اپنے آپ کو قلندر کر لیتا ہے۔ یعنی ایک کامل عاشق اپنی ذات کی خود غرضیوں سے پاک ہوتا ہے، اس کی ذاتی خواہش اپنی ذات کے لیے نہیں ہوتی بلکہ اس ذات کے لیے ہوتی ہے جس سے وہ اپنے آپ کو منسوب کر لیتا ہے۔ یعنی کامل عاشق کی مکمل خوشی اسی ذات کی خوشی سے منسوب ہوتی ہے جس سے وہ عشق کرتا ہے۔ اور اگر اس کی ذاتی خواہشات اس پر حاوی ہونے لگیں تو پھر وہ قلندر نہیں رہتا۔
اسے تم مٹا نے کی کوشش نہ کرنا
جو لکھا ہے دل پر وہ نام آخری ہے
جب ہم کلمہ پڑھتے ہیں تو یہ بھی ایک عہد ہے ایک وعدہ ہے اپنے رب سے کہ ہم اسی پر ایمان لائیں گے اور اس کے حکم کے خلاف نہیں کریں گے۔ اور اس کے پیغمبر کی اطاعت ایسے کریں گے جیسے اس کی اطاعت کرنے کا حق ہے۔ اسی طرح ایک کامل مسلمان تب تک کامل ہو ہی نہیں سکتا جب تک اس کا عشق اس کی ذات کی تمام خود غرضیوں سے پاک نہ ہو۔
مجھے عشق کرتے ہوئے لگ رہا ہے
مری زندگی کا یہ کام آخری ہے
جو شخص احسان کرنے والوں کے احسانات کو یاد رکھتا ہے ، وہ ہمیشہ ثابت قدم رہتا ہے ، چاہے وہ احسانات اس کے ماں باپ کے ہوں، اس کے بہن بھائیوں کے ہوں اس کے دوست احباب کے ہوں یا پھر سب سے بڑھ کر اس کے پیدا کرنے والے کے احسانات ہوں۔ جو انسان اپنے رب کی نعمتوں اور اس کے احسانات کو یاد رکھتا ہے وہ کبھی نافرمان ہو ہی نہیں سکتا، نافرمانی تو ہوتی ہی تبھی ہے جب انسان خود غرض ہو جائے اور صرف اپنی ذات کے بارے میں سوچے۔
چاند سے یاری اپنی
اور تارے ہمسائے ہیں
کامل عشق بھی ایک ایسی چیز ہے، ایک ایسا جذبہ ہے، ایک ایسا مقام ہے جب انسان اپنے بارے میں سوچنے سے زیادہ اس بات پر غور کرتا ہے کہ جس سے وہ عشق کرتا ہے وہ ذات اس کے عمل سے خوش ہو گی یا پھر ناراض۔ عاشق جب اپنے دل اپنی تمام خود غرضیوں سے پاک کر لیتا ہے تو پھر اس کی ایک ہی غرض باقی رہ جاتی ہے کہ جس سے وہ عشق کرتا ہے اسے کس طرح راضی کرے۔
جاذب توڑا آئینہ
عکس کو چکنا چور کیا
محبت میں بے وفائی نہیں ہو سکتی اور نہ ہی عشق میں نافرمانی ہو سکتی ہے، درحقیقت ہم محبت اور عشق کا اقرار تو بے دھڑک کر دیتے ہیں مگر محبت اور عشق کے جذبات کو سمجھنا، اور اپنے آپ کو ان پاک جذبات کے لیے تیار کرنا یہ ایک بہت بڑا مقام ہے جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔
ہمیں ڈرنا نہیں آتا جاذبؔ
ہمیں پھر بھی ڈرایا جا رہا ہے
عشق کرنے والا تو اپنی جان تک قربان کر جاتا ہے اور جھوٹے اقرار کرنے والا تو اپنی خواہشوں پر بھی قابو نہیں پا سکتا اور تھوڑی سی آزمائش اس کی جھوٹی محبت اور اس کے جھوٹے عشق کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے۔
جب بھی اُس کی مثال دیتی ہو
جان میری نکال دیتی ہو
پہلے سنتی ہو غور سے باتیں
پھر سلیقے سے ٹال دیتی ہو
کندن بننے کے لیے وجود انتہائی حرارت پر پگھلائے جاتے ہیں ۔ عشق اور محبت کے مقام صرف زبان ہلانے سے نہیں ملتے۔ جو اپنے نفس پر قابو رکھتے ہیں، اور جو اپنے خواہشوں کے غلام نہیں ہوتے صرف انہیں ہی محبت کی پہچان ہو سکتی ہے اور صرف وہی عشق کے اعلیٰ مقامات تک پہنچ پاتے ہیں۔
کوئی ملتا نہیں گریبان چاک
اس کا مطلب ہے قیس مر گیا ہے
ڈھیروں دعاؤں اور بہت سی نیک خواہشات کے ساتھ ان کی کامیابیوں کا منتظر۔
میاں وقارالاسلام، شاعر، ادیب، کالم نگار، مرتب، کارپوریٹ ٹرینر، بزنس کنسلٹنٹ
پرنسپل کنسلٹینٹ، مارول سسٹم، ڈائیریکٹر آپریشنز، نیازی گروپ
فاونڈر، وقار پاکستان، ایڈوائزر ادب سرائے انٹر نیشنل