پختہ رنگوں کی کہانیاں
تحریر: میاں وقارالاسلام
زندگی چاہے کئی سو سال کی ہو، سو سال کی ہو، ستر سال کی ہو ساٹھ سال کی ہو یا پھر اس سے کم لگتا تو ایسے ہی ہے کہ جیسے پل بھر میں گزر گئی۔
انسان اپنی زندگی پر مختصر لکھنے بیٹھے تو چند ہی لائنوں میں قصہ تمام کیا جا سکتا ہے اور اگر تفصیل سے لکھنے بیٹھے تو بعض دفعہ یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی نظر میں اتنا لمبا افسانہ بن جاتے ہے کہ ختم کرتے کرتے عمر کم پڑ جاتی ہے۔
انسان ماں کی محبت میں لکھتا ہے تو الفاظ کم پڑ جاتے ہیں، باپ کی محبت میں لکھتا ہے تو الفاظ ہی نہیں ملتے جو ایسی بے پناہ محبتوں کے عکاس بن سکیں مگر پھر بھی لکھا جاتا ہے اور بہت لکھا جاتا ہے اور جتنا بھی لکھا جاتا ہے کم پڑ جاتا ہے۔
اسی طرح دوستوں اور رشتہ داروں اور قرابت والوں پر لکھا جاتا ہے، استادوں پر لکھا جاتا ہے، نئی اور پرانی نسلوں پر لکھا جاتا ہے۔ اور یہ سفر بھی کبھی ختم نہیں ہوتا۔
انسان اگر نظر دوڑائے تو پرندوں کی کہانیاں ختم نہیں ہوتیں جانوروں کے قصے ختم نہیں ہوتے، کیا جھیل کیا وادیاں، کیا دریا کیا سمندر کیا قدرتی نظارے، کیا زمین اور کیا آسمان نظر جہاں جہاں پڑھتی ہے کچھ نہ کچھ نکال لاتی ہے۔
اور اگر نظر کہیں نا بھی پڑے تو تخیل کی ایک وسیع دنیا پڑی ہے۔ انسان سوچوں میں کھو جائے تو اتنا دور نکلا جاتا ہے کہ پھر کسی کی آواز بھی اس تک نہیں پہنچی۔ سوچ ہی سوچ میں انسان آسمانوں کی حدوں سے نکل جاتا ہے، سمندر کی گہرائیوں میں اُتر جاتا ہے اور قلم کار ایسی ایسی باتیں لکھ جاتے ہیں کہ اگر ان کی باتیں سونے کے قلم سے بھی لکھی جائیں تو بھی ان کی قیمت کا تخمینہ نہیں لگایا جاسکتا۔
اگر دیکھا جائے تو یہ انسان کا نہیں بلکہ رحمٰن کا ہی کمال ہے جس نے ایک ذرے کو اتنی اہمیت دے دی کہ وہ اشرف المخلوقات ہے گیا۔ خالق نے اس مخلوق کو ایسا بنایا ہے کہ یہ بہت کچھ تخلیق کرنے کی صلاحیوں سے مالا مال ہے۔
مگر یہ صلاحیوں سے مالا مال انسان اپنی وقت تب کھو دیتا ہے جب یہ اپنی ٹھیک ٹھیک پہچان نہیں کرپاتا، اتنی سی پہچان نہیں کر پاتا کہ اسے پیدا کیوں کیا گیا، اور اسے کس نے پیدا کیا، اس نے کرنا کیا ہے اور اس کا ہونا کیا ہے۔ دنیا سے جو زادِ راہ اکھٹا ہوگا اس کا کیا معاملہ ہو گا اور یہ کہ آخر کار اسے اپنے ہر عمل کا جواب دہ ہونا ہے۔
کہانی ایک ہو یا ہزاروں، انجام اچھا ہو یا برا، لوگ تعریف کریں یا نہ کریں شاید فرق صرف ایک ہی چیز سے پڑھے گا کہ ہزاروں کہانیاں رکھنے والا یہ انسان اپنی زندگی کے اصلی کہانی کیسے لکھ کر آیا ہے۔ کیا اس کی زندگی کی اصلی کہانی اتنی دلچسپ اور حسین ہے کہ اس کی مغفرت کروا سکے۔
خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں جو رنگ بھرتے ہیں، ان رنگوں کی حقیقت اللہ کے ہاں کیا حیثیت رکھتی ہے ایسا نہ ہو کہ بے بہا رنگوں سے سجی سجائی زندگی جب اپنا حساب دینے پر آئے تو اس کے سارے رنگ ہی اُڑ جائیں۔
اپنی زندگی کو خوبصورت بنائیں، اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی مگر اسے پختہ رنگوں سے سجائیں تاکہ ان کا نکھار دنیا میں بھی رہے، آپ کے دنیا سے جانے کے بعد بھی رہے اور آپ ان رنگوں کے حساب کے دن بھی دیکھ کر خوش ہوتے رہیں۔
اللہ ہمیں توفیق دے، ہم اللہ کی دی ہوئی ہدایات پر عمل پیرا ہو سکیں اور اپنی زندگیوں کی کہانیاں ایسے پختہ رنگوں سے لکھیں کہ یہ ہمارے لیے زادِ راہ اور آخرت میں مغفرت کا سامان پیدا کر سکیں۔