لاحاصل مہربان
تحریر: میاں وقارالاسلام
انسان جب پیدا ہوتا ہے، تو اس کے لیے سب سے مہربان ہستی اس کی ماں ہوتی ہے، پھر اسے جب اپنے باپ کی پہچان ہوتی ہے تو اسے اس میں بھی اپنا مہربان نظر آتا ہے، پھر اس کے بہن بھائی رشتے دار، آس پاس کے لوگ، یہاں تک کہ وہ گھر کے نوکروں سے بھی مانوس ہو جاتا ہےاور اسے اپنے بچن میں ہی ایک چھوٹی سی مہربان دنیا مل جاتی ہے۔
پھر انسان کو شعور آنے لگتا ہے اور اسے لوگوں کی زیادہ پہچان ہونا شروع ہوتی ہے، انسان کو سمجھایا جاتا ہے کہ ہر پیار کرنے والا مہربا ن نہیں ہوتا، انسان کچھ لوگوں سے کم قریب ہوتا ہے اور کچھ لوگوں سے زیادہ قریب ہوتا اور یوں اس کے مہربان بانٹ دیے جاتے ہیں۔ پھر انسان کو سکول بھیج دیا جاتا ہے، وہاں اسے مہربان اساتذہ ملتے ہیں، مہربان دوست ملتے ہیں اور اسے ایک اور چھوٹی سی دنیا مل جاتی ہے، بہت سے اساتذہ اور بہت سے دوستوں کے درمیان بھی انسان کو بہت جلد یہ فرق محسوس ہونے لگتا ہے کہ کون اس پر زیادہ مہربان ہے اور کون اس پر کم مہربان ہے۔
وقت گزرتا چلا جاتا ہے انسان میں مذید شعور بیدار ہوتا ہے تو انسان اپنے فیصلوں پر غور کرتا ہے، کہ جو اسے زیادہ ڈانٹتے تھے وہ اس کے زیادہ مہربان تھے اور جو اسے کم ڈانٹتے تھے یا غلط ترغیب دیتے تھے، یا اکساتے تھے وہ اس کے کم مہربان تھے بلکہ ان میں سے تو کچھ اس کے دشمن بھی تھے جنہیں وہ ہمیشہ مہربان سمجھتا رہا۔ یوں تقسیم کا مزید سلسلہ جاری رہتا ہے اور انسان کے مہربان محدود ہوتے چلے جاتے ہیں۔
پھر انسان اپنی تعلیم مکمل کرتا ہے اور اپنے لیے روزگار تلاش کرنے نکلتا ہے، یا نوکری کرتا ہے ، یا پھر اپنا کوئی کاروبار کرتا ہے، یہاں بھی اسے اپنا پہلا مالک ، یا کاروبار میں معاون شروع شروع کے لوگ اپنے محسن نظر آتے ہیں اور وہ انہیں اپنا مہربان سمجھنے لگتا ہے۔ مگر بہت جلد اسے اندازہ ہو جاتا ہے کہ لوگ مہربان کم ہی ہوتے ہیں اور اپنے مفاد کو سب سے پہلے ترجیح دیتے ہیں۔ بہت سے انسان جن پر دنیا کا رنگ چڑھنے لگتا ہے اسی طرح وہ بھی اپنا رنگ بدلنا شروع کر دیتے ہیں۔ انسان اپنے رشتوں اور اپنے دوستوں کو مفاد پر تولنے لگتا ہے، ان لوگوں کے زیادہ قریب ہو جاتا ہے جن سے اسے مالی فائدہ ہو اور ان لوگوں سے دور ہوتا چلا جاتا ہے جن سے اسے کچھ خاص فائدہ نہ ہو۔ یہاں تک کہ اس کے پاس ماں باپ اور بہن بھائیوں اور قریبی رشتہ داروں کے لیے بھی وقت کی کمی ہوتی چلی جاتی ہے۔
مہربان وقت بھی ہمیشہ مہربان نہیں رہتا، یہ بہت سے مہربانوں کو ہم سے دور کر دیتا ہے، انسان جن ہاتھوں میں پرورش پاتا ہے جن کی انگلی تھام کر چلنا سیکھتا ہے، جو اسے بولنا سیکھاتے ہیں، یا جو اساتذہ اسے پڑھنا سیکھاتے ہیں ، یا جو انسان کے بچپن ، لڑکپن اور جوانی کے رہنما رہے ہوتے ہیں، وہ ایک ایک کر کے جانے لگتے ہیں، انسان جو غموں سے آشنا نہیں تھا اس کی غموں سے آشنائی شروع ہو جاتی ہے، بہت سے قریبی رشتہ دار اس کی زندگی سے غائب ہو جاتے ہیں، بہت سے دوست جیتے جی اس سے دور ہو جاتے ہیں، اور بہت سے چاہنے والے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملتے ہیں۔ تو انسان کے اندر ایک اور انتشار پیدا ہوتا ہے۔ کہ اس کا کوئی مہربان ہمیشہ رہنے والا نہیں ہے۔
انسان جب اپنے بہت ہی قریبی لوگوں سے لاتعلق ہوتا ہے، یا پھر انہیں کھو دیتا ہے، یا پھر انہیں پا نہیں سکتا تو دکھوں اور غموں کا ایک سلسلہ اس کے اندر جنم لیتا ہے، کوئی اپنے حبیب کو یاد کر کے روتا ہے، کوئی اس کی جدائی میں شاعری کرتا ہے، کوئی اس کی تصویریں بناتا ہے، کوئی اس کے لیے تاج محل بناتا ہے اور کوئی خود غم کی تصویر بن کر رہ جاتا ہے۔ ایک سے ایک غم کا پہاڑ انسان کے سر پر ٹوٹتا ہے، کسی کی ماں چلی جاتی ہے، کسی کا باپ چلا جاتا ہے، کسی کے بھائی اور بہن اس کے ساتھ نہیں رہتے اور کسی کے رشتے ناتے جیتے جی بے وفا ہو جاتے ہیں یا پھر بے نام ہو جاتے ہیں۔
انسان جنہیں مہربان سمجھتا تھا، وہ تمام مہربان یا تو وفات پا گئے، یا بے وفائی کر گئے ، یا اپنا مطلب پورا ہوتے ہی الگ ہو گئے، یا انسان کی اپنی مطلب پرستی نے انہیں کھا لیا، اور یوں انسان اکیلا ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر تنہائی اسے کھانے لگتی ہے۔ اور وہ اپنے مہربانوں کو یاد کر کے روتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس سے اس کا اکیلاپن بانٹا جائے ۔ اور انسان اپنی تنہائی سے ڈرنے لگتا ہے۔ یہاں تک کے اس کے اردگرد بہت سے لوگ ہوتے ہیں، بڑی شان و شوکت ہوتی ہے مگر انسان کو اب اپنی مطلبی رفاقتوں سے الجھن ہونے لگتی ہے، اب اسے مطلبی لوگ نہیں چاہیں، اسے اپنے بچپن کے دوستوں کی طرح بے لوث دوست چاہیں، اپنے بچپن کے رشتہ داروں کی طرح ڈاٹنے والے چاہیں ، اسے مہربان رشتے چاہیں، انسان بہت مضبوط ہونے کے بعد بہت کمزور ہونے لگتا ہے۔ انسان کے سامنے اس کے اپنے بچے بڑے ہو رہے ہوتے ہیں، وہ بچے جنہیں اس نے اپنے ہاتھوں میں پالا پوسا بڑا کیا ان کی چھوٹی چھوٹی ہر ضرورت کا خیال رکھا، مگر جیسے ہی وہ بڑے ہوئے وہ اپنے آپ میں مصروف ہو گئے، جن بچوں کو والدین نے مہربان بن کر دیکھایا، ان پر شفقت کا سایہ کئے رکھا انہیں بچوں میں والدین اپنا مہربان تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بچے اچھے بھی ہوتے ہیں فرمابردار بھی ہوتے ہیں مگر جس طرح کی شفقت انہیں ماں باپ دیتے ہیں بہت ہی کم ایسا ہوتا ہے کہ اسی طرح کی شفقت اور مہربانی انہیں اپنے بچوں سے مل جائے۔ ایک طرف انسان کو اس کا بڑھاپا کھائے جارہا ہوتا ہے اور دوسری طرف اسے اس کے کے بچوں کی خود سر جوانی کھائے جا رہی ہوتی ہے۔
جن بزرگوں کی وجہ سے گھروں میں چہل پہل تھی، میلوں کا سماں رہتا تھا، وہ اپنی کمزوری اور بڑھاپے کی وجہ سے بہت محدود ہو جاتے ہیں۔ گھروں میں پہلے جیسی چہل پہل نہیں ہوتی، جو مہربان اور دوست آتے ہیں وہ بچوں کے مہربان اور دوست ہوتے ہیں، اور بزروگوں کے جاننے والے پہلے تو کم ہی زندہ رہ گئے ہوتے ہیں اور اگر کہیں کوئی زندہ بھی ہوتے ہیں تو وہ بھی اپنے اپنے گھروں میں ویسے ہی محدود ہو جاتے ہیں جیسے وہ خود محدود ہو گئے ہوتے ہیں۔
انسان سوچتا ہے کے اسکے بہت سے رشتہ دار تھے، بہت سے تعلق دار تھے ، بہت سے دوست تھے بہت سے قرابت والے تھے سب کے سب کیا ہوئے، وہ مطلب پرست کہاں گئے، کوئی مطلب پرست ہی آ جاتا، مگر نہیں، انسان جیتے جی کتنا تنہا ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو ایک غیر ضروری چیز سمجھنے لگتا ہے۔
کچھ لوگ زندگی کو ایسے نہیں جیتے ، جس طرح کی منظر کشی میں نے اوپر کی ہے، بلکہ کچھ لوگ شروع سے ہی ایمان لے آتے ہیں کہ ان کا مہربان لاحاصل نہیں، دنیاوی نہیں، خون کے رشتوں سے بندھا ہوا نہیں اور وقتی نہیں، ان کا مہربان صرف ایک ہی ہے، جسے کوئی مطلب نہیں، جسے کوئی غرض نہیں اور جو کسی بھی حال میں ان کا ساتھ چھوڑنے والا نہیں۔ نہ ہی وہ دنیا میں انہیں اکیلا کرے گا اور نہ ہی انہیں آخرت میں اکیلا کرے گا۔
جو لوگ اپنے مالک سے، اپنے رب سے، اپنے خدا سے جڑے ہوتے ہیں، وہ دنیا میں کبھی تنہائی کا شکار نہیں ہوتے، وہ ہمیشہ صبر اور شکر سے کام لیتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ان کا مہربان انہیں چھوڑ کر جانے والا نہیں، خود غرض نہیں، کمزور نہیں، مطلب پرست نہیں، بلکہ ان کا مہربان ہمیشہ رہنے والا ہے اور موت اور بیماری سے پاک ہے، وہ رشتہ داریوں اور تعلق داریوں سے پاک ہے، وہ مجبور نہیں، وہ محتاج نہیں، اس کی بادشاہی کبھی ختم ہونے والی نہیں، اس کا فضل اور اس کی مہربانی کبھی کم ہونے والی نہیں، ان کا مہربان ہمیشہ سننے والا ہے، ہمیشہ دیکھنے والا ہے، ہمیشہ سنبھالنے والا ہے۔
کمزور مہربانوں کے سہارے انسان نہ زیادہ دیر کھڑا رہ سکتا ہے نہ زیادہ دور تک چل سکتا ہے۔ اور اگر مہربان کمزور ہو تو انسان کا سہارا بھی کمزور ہوتا ہے، جب مہربان ٹوٹتے ہیں تو انسان بھی ٹوٹ جاتا ہے، جب مہربان مرتے ہیں تو ادھا انسان بھی مر جاتا ہے۔ تو ساتھ کس کا بہتر ہے اور سہارا کس کا اچھا ہے۔ انسان جتنا جلد اپنی اس حقیقت کو سمجھ لے اور اپنے رب کی طرف رجوع کر لے اتنا ہی اس کے لیے بہتر ہے اور اتنا ہی اس کے لیے دنیا اور آخرت میں فائدہ مند ہے۔ باطل سہارے اور باطل مہربان انسان کو توڑتے چلے جاتے ہیں اور انسان کے پاس سوائے مایوسیوں کے اور کچھ نہیں بچتا، تو سہارا تو اسی کا لینا چاہیے جو لائق حمد و ثنا ہے اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔ اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، رب کے سوا تمام مہربان لاحاصل ہیں، ہم نے اکیلے اکیلے مرنا ہے اور اکیلے اکیلے ہی اپنی قبروں سے اُٹھنا ہے اور ہم اپنے حقیقی مہربان کے سامنے اکیلے اکیلے ہی پیش ہوں گے۔ سہارا اسی کا لینا چاہیے جو آخرت میں ہمارا سہارا بن سکے۔
اے اللہ، ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیری ہی مدد مانگتے ہیں، اور تیری طرف ہی ہمیں لوٹ کر آنا ہے، دعا گو میاں وقارالاسلام