آدھی ادھوری عیدیں
تحریر: میاں وقارالاسلام
عید خوشی کا تہوار تو ہے، مگر یہ غم کی شدت بھی بڑھا دیتا ہے۔ بہت سے زخموں کو تازہ کردیتا ہے۔ لگتا ہے جیسے کوئی چیز زخموں کو کریدتی ہی چلی جا رہی ہو۔
زندگی آنی جانی ہے، یہ دنیا کب لافانی ہے، کسی نے دوست اور رشتہ دار کھوئے ہوں گے، کسی نے بھائی بہن کھوئے ہوں کے کسی کا لخت جگر دور ہو گیا ہو گا کی کی ماں اور کسی کا باپ خالق حقیقی سے جا ملا ہو گا۔ کسی کا شوہر نہیں رہا کسی کی بیوی نہیں رہی یا پھر کسی کا کوئی اور قربت والا ہمیشہ کے لیے اکیلا کر گیا ہوگا۔
جب عید آتی ہے تو بچھڑنے والے چاہے بہت پہلے بچھڑے ہوں یا پھر ماضی قریب میں ان کی غیر موجودگی دل کے آنگن کی ویرانی کو باہر لے آتی ہے۔ باوجود بہت سے تعلق داریوں اور رشتہ داریوں کے ان کی کمی اپنی جگہ مکمل طور پر قائم رہتی ہے۔
بہت سے مسکراتے ہوئے چہرے، رنگ برنگے پیراہن، اور عید کی مبارکبادیں گویا غموں کی شدت کو ساتویں آسمان تک لے جاتی ہیں، نہ بندہ پھوٹ کر رو سکتا ہے نہ کھل کر دل کی کیفیت بیان کر سکتا ہے بس جدائی کا غم پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے کر بیٹھ جاتا ہے۔
جب کوئی عید مبارک کہتا ہے تو یوں لگتا ہے کسی نے غموں کے تار چھیڑ دیئے ہوں، بہت مشکل ہوتا ہے آنکھوں پر مصنوعی خوشی کا احساس رکھنا اور دل کے نہ رکنے والے آنسوں کو صاف کرتے رہنا۔ اور اسی عجیب سی کشمکش میں عید ہلکان کرتے کرتے گزر جاتی ہے۔
عید کی خوشیاں بہت سے لوگوں سے جڑی ہوتی ہیں، گویا موتیوں کی ایک لڑی ہوتی ہے، جب یہ لڑی ٹوٹنے لگتی ہے تو پھر خوشیوں کے موتی بھی بکھرنے لگتے ہیں، ایسا نہیں کہ اردگرد محبت کرنے والے کم ہوتے ہیں، جسم چاہے پورا سلامت ہو ذہن اسی طرف ہی جاتا ہے جس جگہ چوٹ لگی ہوتی ہے۔ بس ایسا ہی کچھ احساس کہ زخموں کے مہانے اپنے ہونے کا شدید احساس دلانے لگتے ہیں۔
دل صبر اور شکر کا مطلب سمجھ چکا ہوتا ہے، لوگوں کے دلاسے بھی کام کر جاتے ہیں انسان اوپر اوپر سے پتھر بھی ہو چکا ہوتا ہے۔ مگر عید کے آتے ہی پتھر پھوٹ پڑتے ہیں اور ان میں نہ نظر آنے والے آنسوؤں کے کئی چشمے پھوٹ نکلتے ہیں۔ عجیب غم ہیں جو کبھی نہیں جاتے، گئے دنوں کی یادیں کبھی نہیں بھولتیں، جدا ہونے والے کبھی الگ نہیں ہوتے۔
عیدیں شاید بچھڑنے والے سے ملانے چلی آتی ہیں، ایک ایک یاد تازہ ہونے لگتی ہے، بچھڑنے والا کیسے ملنے آتا تھا، کیسے بلاتا تھا کیسے بات کرتا تھا، کیسے غمگساری کرتا تھا، کسے دل بہلاتا تھا، اس کا ہونا کس قدر اہم تھا اور اس کا نہ ہونا کس قدر تکلیف دہ ہے، کاش وہ اب بھی ساتھ ہوتا، کچھ دن اور کچھ پل اور اتنا جلدی نہیں جانا چاہیئے تھا اس کے بغیر کسی چیز کا لطف نہیں عجیب سا خالی پن عجیب سے آدھی ادھوری عیدیں۔
شاید زندگی ہے ہی آدھی ادھوری، ہمیں اسے بہت سے قیمتی لوگوں کے بغیر جینا پڑتا ہے، ان کی یاد میں تڑپنا پڑتا ہے اپنے دل کو بہلانہ پڑتا ہے اور جینے کے بہانے تلاش کرنے پڑتے ہیں۔ اور یہی زندگی کا بنیادی فلسفہ ہے۔
ہمیں بہت کم میں خوش رہنا ہے، ہمیں بہت تھوڑے پر گزارا کرنا ہے۔ اسی پر ہمیں صبر اور شکر کرنا ہے۔ ہم ایسے ایسے رشتوں میں کھو جاتے ہیں اور دل ایسے ایسے تعلقات سے مانوس ہو جاتا ہے کہ زندگی کا تصور بھی ان کے بغیر ناممکن ہو جاتا ہے مگر اللہ ہماری خواہشات کے مخالف اس دنیا کو چلاتا ہے۔
جو ہو نہیں سکتا وہ ہوتا ہی چلا جاتا ہے۔ ایک غم جو ہم سے برداشت نہیں ہوتا ایسے کئی غم ہمارے سروں سے گزر جاتے ہیں۔ جس آسمان میں کئی ستارے ہوتے ہیں ان میں سے چند آگے پیچھے ہو جائیں تو آسمان خالی ہو جاتا ہے چاہے اسے پھر اتنے ہیں ستاروں سے بھر دیا جائے۔
آج ہم کسی کے لیئے رو رہے ہیں کل کوئی ہمارے لیئے رو رہا ہوگا اور یہ دنیا ایسے ہی چلتی چلی جائے گی۔ ہمیں جانے والوں کی قدر و قیمت کا احساس تو ہوتا رہے گا، مگر جو لوگ ہم میں موجود ہیں انہیں ہم شاید بے وقت کرتے رہیں گے۔
جو چلے گئے وہ بھی بہت قیمتی تھے اور جو موجود ہیں وہ بھی بہت قیمتی ہیں بعد میں رونے سے آج کا خوش رہنا اہم ہے، خوش رہیئے خدا جانے ہمیں زندگی نے اور کتنا آزمانا ہے کیا معلوم ہمیں کون کون سے دکھ اٹھانے ہیں۔ مگر زندگی نے نہیں رکنا، زندگی کو چلنا سیکھایا گیا ہے اس نے چلتے ہی رہنا ہے نئے لوگوں کے آنے کا سلسلہ جاری رہنا ہے اور بچھڑنے والوں نے بچھڑ ہی جانا ہے۔
اے اللہ ہمیں صبر کرنے والوں میں شامل رکھنا ۔۔۔ آمین