PRESERVE YOUR MARVELS
STORE YOUR KNOWLEDGE
پریزرو یور مارولز، سٹور یور نالج
اپنے ہیروز کا تحفظ کریں، اپنے علم کو محفوظ کریں
تحریر: میاں وقارالاسلام
ہمارے ہاں بہت ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اپنے اپنے میدان میں بہت کام کیا اور بڑا نام کمایا اور پھر اس دنیا سے چلے گئے ہمیں ایسے لوگوں کے شاید نام بھی معلوم نہ ہوں۔ ایسے لوگ جب بھی جاتے ہیں ایک خلا چھوڑ جاتے ہیں اور پھر ایک نسل کو دوبارہ صفر سے محنت کرنی پڑتی ہے کیوں کہ ہم انے ایسے شاندار لوگوں کے کام کو نہ تو اہمیت دی، نہ سیکھا، نہ اگے بڑھایا اور نہ ہی پریزرو کیا۔
2 سے 4 سالوں میں کسی بھی فیلڈ میں پی ایچ ڈی کی جا سکتی ہے، اگر پی ایچ ڈی کر بھی لی جائے تو وہ تجربہ حاصل نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ لوگ کسی فیلڈ میں اپنی پوری زندگی لگا کر حاصل کرتے ہیں۔ ہم ایسے بہت سے لوگ ہر دن ضائع کر دیتے ہیں اور ہماری ترقی کا سفر پھر صفر سے شروع ہوتا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں نئی جینریشن کو اولڈ جینریشن کی محنت پریزو کر کے فراہم کی جاتی ہے اور وہ اپنے صفر کا آغاز وہیں سے کرتی ہے۔ کامیاب لوگوں پر بکس لکھی جاتی ہیں ریسرچ پیپرز پبلیش ہوتے ہیں۔ ان کے نام پر اکیڈمیز بنتی ہیں، کالجز اور یونیورسٹیز بنتی ہیں اور ریسرچ سینٹرز بنتے ہیں اور ان کے کام کو بغیر کسی رکاوٹ کے تسلسل کے ساتھ چلایا جاتا ہے اور پھر انہیں کے اداروں سے ہمارے سٹوڈینٹس ملک کا وسیع سرمایہ خرچ کر کے پی ایچ ڈی کر کے آتے ہیں۔ ایم بی اے میں بہت سے ایسے لوگوں کی کیس سٹڈیز پڑھائی جاتی ہیں جو خود گریجویٹس بھی نہیں ہوتے۔ کیا ہمارے ہاں اس طرح کے تجربہ کار نان گریجویٹس نہیں ہیں جن کا کام کسی بھی پی ایچ ڈی سے بڑھ کر ہو۔ یقینا بہت ہیں مگر ہم ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔
ہمارے ہاں ہر میدان میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جن کا کام مثالی ہے مگر ان کے کام کی نہ تو حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور نہ ہی انہیں کوئی پہچان ملتی ہے۔ وہ اپنی انفرادی کپیسٹی میں اتنا کچھ کر جاتے ہیں کہ پوری سٹیٹ اپنی ساری مشینری کو استعمال کرتے ہوئے بھی نہیں کر سکتی۔ پھر آپ سوچیں کہ اگر ان پر تھوڑی سی توجہ دے دی جائے تو وہ کیا سے کیا کر دیکھائیں گے۔
پاکستان میں ایسے بہت سے گروپس ہیں جن کے مالک زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے مگر انہوں نے بہت سی فیکٹریز یا لگائیں اور اپنے کام کو پھیلاتے چلے گئے۔ پھر ان کی نئی جینریشن جو امریکہ یا برطانیہ سے اعلی تعلیم حاصل کر کے واپس آئی تو ان فیکٹریوں کو بڑھانا تو دور کی بات سنبھال بھی نہیں پائی اور ان کے والد کی لگائی ہوئی فیکڑیاں کچھ بند ہو گئیں کچھ خسارے میں چلی گئیں۔ اگر وہ اپنے بڑوں سے کچھ تجربہ لے لیتیں تو شاید ان کا کاروبار کبھی نیچے نہ آتا۔
اب نئی جینریشن پھر صفر سے سب کچھ شروع کرے گی ہو سکتا ہے مار کھا کھا کر وہ کامیاب بھی ہو جائے مگر پھر وہ اپنے تجربات کو محفوظ کرنے کی بجائے کہیں گم کر کے چلی جائے گی۔ اور پھر نیا سفر صفر سے باندھنا پڑے گا۔
ہماری ایک حکومت کوئی کام کرتی ہے تو دوسری کو نئے سرے سے شروع کرنا پڑتا ہے مطلب کوئی حکمت عملی نہیں کوئی ویژن نہیں۔
قومیں 100 سال سے بھی زیادہ کی منصوبہ بندی کرتی ہیں اور پھر سیڑھوں کی طرح اوپر کی طرف چلتی ہیں اور پھر چلتی ہی چلی جاتی ہیں انہیں رائزنگ نیشنز کہتے ہیں۔ یہ قومیں اپنی مجموعی محنتوں کا تحفظ کرتی ہے اور اپنی محنتیں ضائع نہیں کرتیں اور اس طرح وہ دنیا میں ایک مثال بن کر ابھرتی ہیں۔
اگر اللہ نے آپ کو کوئی صلاحیت دی ہے اسے کم سے کم اپنی سطح پر ضرور محفوظ کریں کیوں کہ جو نالج اور تجربہ آپ کو دیا جاتا ہے یہ آپ کا ذاتی نہیں بلکہ اللہ آپ کو اس لیئے تیار کرتا ہے کہ آپ سے لوگوں کی فلاح کا کام لے۔ تو جو علم اور تجربے کی امانت اللہ نے آپ کو دی ہے اسے اپنی حد تک ضرور محفوظ کریں اور اسے نئی جینریشن کے حوالے کرتے جائیں آپ دیکھیں گے کہ آپ کے خواب آپ کے اردگرد ہیں تعبیر ہونے لگیں گے۔ بجائے اس کے کہ آپ اپنا تجربہ اور علم کسی صندوق میں یا پھر اپنے اندر ہی رکھ کر ہی دفن ہو جائیں۔ علم ایک قرض ہے جو آپ پر اتارنا واجب ہے۔
رہی گورنمنٹ کی بات تو اسے چاہیئے کوئلے کی کان میں ہاتھ ڈالے اور اس طرح کے نایاب ہیروں کی تلاش کرے انہیں سنوارے اور سامنے لائے تاکہ جو بے نوری ہمارے معاشرے میں نظر آتی ہے اسے ختم کیا جا سکے۔
ہم جن معاشروں سے علم اور آگہی ڈھونڈتے ہیں وہ ہمارے ہی علاقوں سے ہر سال طرح طرح کے ہیرے چوری کر کے لے جاتے ہیں اور ہم اپنی بے بسی کا منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ یا تو ہمیں اپنے مارولز کی پہچان کرنی پڑے گی اور ان کے تجربات کو محفوظ کرنا پڑے گا یا پھر ہماری محنتیں یوں ہی رائیگاں جاتی رہیں گی!