کیا اردو کی جان خطرے میں ہے!
تحریر: میاں وقارالاسلام
آج سے تقریبا 30 سال پہلے جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ میرے والدین اور میرے خاندان کے بڑوں نے مجھے جس معیار کی اردو ورثے میں دی آج وہ ورثہ لٹ چکا ہے۔ آ ج جو اردو میں اپنے بچوں کو دے رہا ہوں یقینا اس کا معیار دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
جس معیار کی اردو ہمیں ورثےمیں ملی تھی ہم نے اسے اپنے سینے سے نہیں لگایا اور نہ ہی اسے اگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ ہم نے جو تعلیم حاصل کی اور جو معیارِ زندگی اپنایا اس میں اردو کا کردار نہ ہونے کے برابر رہا ۔ اور یہ معیار گرتے گرتے چورا چورا ہو گیا اور یہ چورا چورا آج ہمیں اپنے بچوں کی زبانوں پر ٹوٹی پھوٹی اردو کی شکل میں نظر آتا ہے۔
ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، ہمارے بچے جو ہمیں اپنی جان سے بھی عزیز ہیں ہم انہیں وہ ورثہ بھی نہیں لوٹا پائے جو ورثہ ہمیں ہمارے بڑوں نے دیا تھا۔ اردو کی جان خطرے میں ہے ہی ، ساتھ ہی ہمارے بچوں کی پہچان بھی خطرے میں ہے۔ ہم کیسی نئی قوم چھوڑ کر جا رہے ہیں کہ ان کی چورا چورا اردو ہمیں تو کچھ کچھ سمجھ آتی ہے مگر ہمارے جو بزرگ آج زندہ ہیں ، جو اردو کو اس کے اصل روپ میں پہچانتے ہیں ہمارے بچوں سے بات تک بھی نہیں کر سکتے ۔
ہم دو نسلوں کے درمیاں کھڑی ایک عجیب نسل ہیں جس نے دادوں اور پوتوں کو ایک دوسرے سے اجنبی کر دیا ہے۔ ہم نے جدت کے نام پر ایک ایسا زہریلا بیج بو دیا ہے جس کی جنس بھی زہر آلودہ ہو گی۔ جو فاصلہ ہم نے پیدا کیا ہے آنے والے بچے شاید اس فاصلے کو اور زیادہ بڑھانے جا رہے ہیں ۔
ہمارے دادوں کو تو شاید ہمارے پوتوں کی اشاروں کی زبان سمجھ میں آتی ہو، مگر شاید ہمارے پوتے اتنے زیادہ جدت پسند ہوں کہ ہم ان کے اشارے بھی نہ سمجھ پائیں۔ نہ صرف اردو کی جان خطرے میں ہے بلکہ ہماری پہچان خطرے میں ہے۔
کیا ہم اتنے بے یارومدد گار ہو گئے ہیں کہ اپنی پہچان کی بقا کے لیے بھی کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ ہم نے جدت کے نام پر کس قدر جہالت کما لی ہے مجھے تو اس کا احساس بہت شدت سے ہوتا ہے۔ اور میں اسی شدت سے یہ کوشش کر رہا ہوں کہ کسی طرح دم توڑتی اردو کی چند سانسیں ہی بحال کر دی جائیں۔
جو کینسر اردو کے اندر سرائیت کر چکا ہے اس کا علاج میرے بس کی بات نہیں اور نہ ہی یہ اتنا آسان کے کہ اس کا ذمہ کسی فردِ واحد پر ڈال کر آنکھیں بند کر لی جائیں۔ اردو کی جان بچانے کا ذمہ ہم سب کو مشترکہ طور پر اُٹھانا پڑے گا! وہ کہتے ہیں نا ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔ اردو کی جان خطرے میں ہیں!
اپنی زبان کے لیے کچھ کیجئے!
اپنی پہچان کے لیے کچھ کیجئے!

غیروں سے شکوہ، اپنوں سے شکایت
تحریر: میاں وقارالاسلام
تصنیف: بیسٹ لائف نوٹس

ظلم دو طرح سے ہوتا ہے، ایک وہ ظلم جو آپ کے دشمن آپ کے ساتھ کرتے رہتے ہیں اور دوسرا ظلم وہ جو آپ کے اپنے آپ کے ساتھ کرتے رہتے ہیں۔ اپنوں پر ظلم کرنے والے دراصل اپنے نہیں ہوتے بلکہ اپنوں کے روپ میں بد ترین دشمن ہوتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کو منافق کہا گیا ہے اور ایسے ہی لوگ آستین کا سانپ ہوتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے۔ اور جب جنگ ہی کافروں سے ہو تو پھر ہمیں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ شاید ہم دشمنوں کے بارے میں کچھ زیادہ ہی احتیاط سے کام لیتے ہیں، مگر جو آستین کے سانپ انہیں شاید ہم آستین بھی خود ہی مہیا کرتے ہیں۔
ایک طرف تو ہم اپنے محسنوں کو رسوا کرتے ہیں اور دوسری طرف ہم اپنے منافقوں کو مہلت دیئے جاتے ہیں اور سالوں تک فیصلے ہی نہیں ہوتے جس کا نتیجہ کچھ یوں ہوتا ہے کہ جن کے ہاتھوں پر خون ہوتا ہے انہیں کے ہاتھوں پر بیت کر لی جاتی ہے۔
جس چوراہے پر دادا رسوا ہوتا ہے، اسی چوراہے پر باپ کی ذلت ہوتی ہے اور پھر اسی چوراہے پر اس کے بیٹے ناک رگڑتے ہیں۔ سبز باغ دادا نے بھی دیکھے تھے، سبز باغ باپ نے بھی دیکھے تھے اور سبز باغ بیٹوں نے بھی دیکھے تھے مگر بنجر زمینوں میں ہریالی نہیں آئی۔ اقتدار ظالموں کے ہاتھ میں رہ گیا، کسان کی کمر ٹوٹ گئی، مزدور کا مان ٹوٹ گیا، قلم کار کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوا۔
لہو سے سینچا ہوا گلشن دو لخت ہو گیا، قوم اپنے دو قومی نظریے پر ایک قوم نہ بن سکی، محبتوں کے سفر کو نفرتوں کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ دشمن نے بلوچی، سندھی، پنجابی، سرائیکی، پشتو اور اردو بولنے والے مہاجروں کے نعرے لگوائے اور ہم لبیک کا مطلب بھی بھول گئے۔
دشمن نے تو کھیل کھیلنا ہی تھا، چاہے وہ پاکستان کو دو لخت کرنے کا ہو، ملک میں دہشت گردی کی کارویاں کرنے کا ہو یا پھر فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ ہو، دشمن کے محاذ میں تو خرافات سے بھری ہوئی تمام چیزیں روز اول سے ہیں شامل ہیں مگر ہمارے محاذ کیا ہیں، ہم نے کیا کرنا ہے اور ہم نے کہاں جانا ہے۔
دنیا کبھی بھی اتنی سیدھی نہیں تھی، جتنی سیدھی یہ ہمیں نظر آتی ہے، ہر ملک ہر قوم اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ بظاہر جن سے ہمیں فائدہ ہو رہا ہوتا ہے انہیں سے ہمیں خطرات ہوتے ہیں، اور جن سے ہمیں خطرات ہوتے ہیں انہیں سے فائدہ بھی اُٹھایا جاتاہے۔
کہتے ہیں کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا، وقت بدلتا رہتا ہے، بین القوامی سفارت کاری بھی اسی طرح کروٹیں بدلتی رہتی ہے۔
زیادہ پرانی بات نہیں ہے، جب ہم امریکہ کے ساتھ کھڑے تھے، ہمیں دنیا میں تنہا کر دیا گیا، اور ہماری امداد بھی روک دی گئی۔ امریکہ نے بھارت کی کھل کر سرپرستی کی، ہمیں ڈبل کراس کیا اور ہمارے ملک کو دہشت گردی کی آگ میں دھکیل دیا۔
ہر ملک کو اپنی دفاع کا حق ہوتا ہے، پاکستان نے بھی اپنے دفاع کے لیے وقت کی ضرورت کے مطابق فیصلے کیے، چین سے امداد لی، اور اپنے استحکام کی طرف سفر جاری کیا۔ کروٹیں بدلے مشکل دور میں ہم نے نہ صرف دوست بدلے، بلکہ دشمنوں کے دوستوں کو بھی اپنی صف میں شامل کر لیا۔
مشکلیں ابھی بھی کم نہیں ہوئیں، مگر انشاءاللہ ایک روشنی کا سفر ہے جس کی طرف ہم بڑھ رہے ہیں۔ شاید دنیا پہلے جیسی نہیں رہی، جیسے حالات سے ہم گزرے ہیں ویسے حالات سے آج کل امریکہ اور انڈیا گزر رہا ہے۔ ہمارا ایک دشمن گڑھے میں ہے تو دوسرا کھائی میں ہے۔ ایک کھائی وہ بھی تھی جو امریکہ اور انڈیا نے ملک کر پاکستان کے لیے کھودی تھی، جس میں بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنا شامل تھا۔
پاکستان کے حق میں بہت ساری چیزیں بہت بری ہوئی ہیں، ہمارے اپنے لوگوں میں بہت سے منافقین تھے جنہوں نے پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا۔ مگر محبت اور جنگ میں یہ تو ہوتا ہے۔
نہ ہمارے دشمن کم ہیں، اور نہ ہمیں امید ہے کبھی کم ہوں گے، نہ ہمیں یہ امید ہے کہ ہم میں منافقین ختم ہو جائیں گے، ہمیں اپنی صفوں میں منافق بھی ملتے رہیں گے اور نادان دوست بھی، مگر ہماری مسافت بھی جاری رہے گی۔ بہت سی نادانیوں کے باوجود بھی کچھ تو ہماری قوم میں ایسا ہے کہ ہم پر اللہ کر کرم جاری ہے۔
آج کا پاکستان کسی صورت کل کے پاکستان سے کمزور نہیں ہے، اور دنیا جو کروٹ لے رہی ہے اس میں ہمارے لیے انشاءاللہ بہت اچھے دنوں کی نوید ہے۔