کوورڈ سٹانس
Covered Stance
تحریر: میاں وقارالاسلام
اگر پاکستان کی تاریخ دیکھی جائے تو جو چیز تمام سیاست دانوں اور ڈیکٹیٹروں میں یکساں طور پر نظر آتی ہے وہ ہے “کوورڈ سٹانس”
اب یہ “کوورڈ سٹانس” ہوتی کیا بلا ہے۔
جب بھی کوئی اقتدار سنبھالتا ہے تو اپنی بری کارکردی یا نالائقی کو چھپانے کے لیئے پچھلی حکومت کی بری کارکردگی یا نالائقی کے پیچھے منہ چھپاتا نظر آتا ہے۔ اپنے کلیئر سٹانس کو سامنے لانے کی بجائے ایک چور راستہ اختیار کیا جاتا ہے اور اپنی تمام تر نالائقیوں کا بوجھ بچھلی حکومتوں پر ڈال کر جان چھڑا لی جاتی ہے۔ اور یہ کوورڈ سٹانس بنیادی طور پر ان سب کے لیئے فیس سیونگ کا کام کرتا ہے۔
نا ہم کسی کو اچھا کہ سکتے ہیں اور نہ ہی ہم کسی کو برا ثابت کر سکتے ہیں۔ ایک طرف تو ہمیں سارے ظالم نظر آتے ہیں اور دوسری طرف ہمیں ان کی مظلوم شکلیں پیش کی جاتی ہیں۔
ایک سے بڑھ کر ایک نجات دہندے ہم پر مسلط کیے جاتے ہیں اور پھر انہیں نجات دہندوں سے ہمیں نجات بھی دلوائی جاتی ہے۔ کبھی یہی لوگ قوم کے صف اول کے محسن ہوتے ہیں اور کبھی صف اول کے مجرم اور یوں تختے پر تختہ پلٹا جاتا ہے۔
جانے ہم اپنی قوم سے کب سچ بولیں اور کب سیدھی بات کریں گے۔
مصطفٰی زیدی کا ایک شعر میرے ذہن میں اکثر گھومتا رہتا ہے
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوۓ ہیں دستانے
زیدی
قوم مجرم کون ہیں، قوم کے محسن کون ہیں کیا ہماری قوم اسی میں تقسیم ہوتی رہے گی۔
ہم اپنی اگلی نسل کو کیا دینے جارہے ہیں۔ پاکستان کے دو حصے ہو گئے اور ہماری قوم کے ہاتھ میں کوورڈ سٹانس تھما دیا گیا۔
نہ مجرموں کا پتہ نہ محسنوں کی خبر
بھٹو شہید ہے یا عدالت کا ایک سزا یافتہ مجرم یہ قصہ بھی تاریخ کے پنوں میں کھو گیا۔
ضیاء اور مشرف نے قانون کے توڑ کر ملک کا بھلا کیا یا ملک مشکلیں بڑھائیں یہ بھی سوالیہ نشان رہے گا۔
پی پی پی اور نون لیگ ۔۔۔ ان کے پس پردہ بھی کئی راز ہیں یہ باری باری حکومتوں میں رہے اور اپنی کارکردگی تو کیا دکھانی تھی قوم کے سامنے ایک کوورڈ سٹانس رکھ کر چلتے رہے اور آج دونوں پارٹیوں کے سربراہ جیل میں ہے۔
اقتدار آج پی ٹی آئی کے ہاتھ میں ہے تو کیا قوم کو ایک بار پھر کوورڈ سٹانس ۔۔۔۔۔ یعنی لال بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے۔
ایسا کیا ہے کہ ان کی کھلی نالائقی پر بات نہیں کی جس سکتی اور کیوں نہیں کی جا سکتی یہ بھی تو ایک کوورڈ سٹانس لے کر چل رہے ہیں اور اپنی ساری غلطیاں ن لیگ اور پی پی پی کے پیچھے چھپانے میں لگے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔ کیا یہ ایک اور کوورڈ سٹانس نہیں!
ذمین کو آسمان سے ملا دینے والے سارے دعوے خاک ہو گئے یو ٹرن کے بھی کئی ٹرن ہو گئے مگر قوم کے کسی بھی اقتدار میں آنے والے نے سچ نہیں بولا!
سیاست گندی نہیں ہے اور نہ ہی عدلیہ گندی ہے مگر دونوں اداروں کو ہمیشہ گندے طریقے سے چلایا گیا ہے نہ عدالتیں کبھی قوم کے سامنے سچ لانے میں کامیاب ہوئی نہ ہی سیاست دانوں نے کبھی سچ بولا ہے۔
فرض کر لیتے ہیں کہ آج تک جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں سب سفر تھیں ۔۔۔۔۔ یہ تو ہمیشہ منوایا جاتا رہا ہے تو اب بھی مان لیتے ہیں۔
مگر سوال ہمیشہ ایک ہی رہے گا اور ایک ہی رہنا چاہیئے کہ کارکردگی کیا ہے۔
ہر حکومت خود کو مسیحا بنا کر اقتدار میں آتی ہے اور خود کو ایک مسئلہ ثابت کر کے چلی جاتی ہے۔
خدا کے لیئے پاکستان پر رحم کریں، اسے مسیحا نہیں چند قابل لوگ چاہیں جو سیدھی طرح سے اپنے حصے کا کام کریں اور اپنی کارکردگی کی بنا پر آگے بڑھے نہ کہ ایک دوسرے کی نالائقیوں کے پیچھے چھپتے چھپاتے اور ایک کوورڈ سٹانس کو سامنے رکھتے ہوئے قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھیں۔
کوورڈ سٹانس کا لولی پاپ سیاست دانوں سے چھین لینا چاہئیے اور اس ٹرک کی بتی بھی توڑ دینی چاہیئے جس کے پیچھے یہ عوام کو لگائے رکھتے ہیں۔
ایک قسم کا کوورڈ سٹانس ججز بھی رکھتے ہیں جو جھوٹے فیصلے لکھتے ہیں اور لکھتے آئے ہیں اور مجرموں کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے ہیں اور ایک کوورڈ سٹانس اسٹیبلشمنٹ کا بھی ہے اور یہی قوم کو تقسیم کر دیتے ہیں پھر اکھٹا بھی کر دیتے ہیں ۔۔۔۔۔ یعنی جیسے چاہا جاتا ہے ویسے کیا جاتا ہے۔
آج تک قوم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ جیل سے کون سا راستہ پارلیمان کو جاتا ہے ۔۔۔۔
سنا ہے پیسہ لوٹنے والوں سے پیسہ نکلوایا جا رہا ہے ۔۔۔۔ یہ سچ ہے یا کوورڈ سٹانس ۔۔۔۔
خدارا کہیں کچھ تو سچ بولیں۔
سچ بولنے سے ملک مضبوط ہوتے ہیں اور قوم یکجا ہوتی ہے۔ جانے کوورڈ سٹانس کے ذریعے قوم کو کون سا شعور دیا جاتا ہے۔
اللہ ہمیں اپنی قوم کے ساتھ سچ بولنے کی توفیق دے آمین