پیپر بک اور ڈیجیٹل بک
تحریر: میاں وقارالاسلام
قلم اور کاغذ کا رشتہ بہت پرانا ہے، شروع شروع میں اخبارات، بینرز، پلے کارڈز، کتابیں ہاتھ سے لکھی جاتی تھیں۔ جیسے جیسے ٹیکنالوجی نے ترقی کی قلم اور سیاہی ایک طرف رہ گئی اور پیپر پر ڈیجیٹل انک نے اپنی اجارہ داری قائم کر لی۔ آج شاید ہی کوئی اخبار اور کتاب ہو جو بغیر ڈیجیٹل پرنٹنگ کے مارکیٹ میں آتی ہے۔
دراصل جسے ہم ہارڈ نیوز پیپر یا ہارڈ پیپر بک کہتے ہیں اسے بھی سب سے پہلے ڈیجیٹل تیار کیا جاتا ہے اور تب ہی یہ ممکن ہو پاتا ہے کہ اسے پرنٹ کرکے مارکیٹ میں لایا جا سکے۔
ایک طرف قلم اور سیاہی کا رشتہ آج تاریخ کا حصہ ہے، دوسری طرف ڈیجیٹل بکس ترقی کرتے ہوئے ہماری سوچ سے کہیں آگے نکل چکی ہے۔ آج کی ڈیجیٹل بک صرف ڈیجیٹل بک ہی نہیں ہے بلکہ معلومات کا ایک وسیع سمندر ہے۔
آج ٹیکنالوجی نے ڈیجیٹل بک کو ایک نئی پہچان دے دی ہے، نہ صرف ڈیجیٹل بک کو موبائل ، لیپ ٹاپ، ٹیب، یا پھر کمپیوٹر سکرین پر پڑھا جا سکتا ہے بلکہ سنا بھی جا سکتا ہے، اور نہ صرف سنا جا سکتا ہے بلکہ کسی بھی مضمون سے متعلقہ ویڈیوز، اور حوالہ جات بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں کسی بھی لفظ کے معانی اور اس کے وضاحتی نوٹس بھی ساتھ ساتھ دیکھے جا سکتے ہیں۔
تحقیق کرنے والے لوگوں کے لیے ڈیجیٹل بکس کی افادیت کے اتنا بڑھا دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی متعلقہ مضمون کی 2 ڈی اور 3 ڈی بھی دیکھ سکتے ہیں، ورچیول ٹوور بھی کر سکتے ہیں، زوم ان اور زوم آوٹ کر کے بہت ہائی کوالیٹی میں کسی بھی تصویر، پراڈکٹ یا آبجیکٹ کو مزید گہرائی میں دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ بات صرف یہاں تک نہیں رکتی بلکہ وہ ان معلومات کو بک مارک کر سکتے ہیں ، کاپی کٹ اور پیسٹ کر سکتے ہیں اور مستقبل میں استعمال کرنے کے لیے محفوظ بھی کر سکتے ہیں۔
بات صرف ڈیجیٹل بک تک محدود نہیں رہی، بلکہ کہیں آگے نکل چکی ہے، دنیا کے بڑے بڑے میوزیمز، اور لائبریرز کو ڈیجیٹل کیا جا چکا ہے ۔ اور ڈیجیٹل بھی اس طرح سے کیا جا چکا ہے کہ آپ کہ آپ گھر بیٹھے تمام معلومات حاصل کر سکتے ہیں اور وہ بھی اسی طرح کے جیسے آپ خود وہاں گھوم پھر رہے ہیں۔
یعنی آپ میوزیم کو موبائل یا کسی بھی انٹرنیٹ ڈیوائیس سے ایکسس کریں اور میوزیم کے مختلف حصوں تک رسائی حاصل کریں پھر کسی بھی حصے میں موجود تصاویرز یا ماڈلز وغیرہ کو فوکس کر کے دیکھ لیں، بات صرف دیکھنے تک محدود نہیں ، آپ کسی بھی چیز کی مذید تفصیل حاصل کرنے کے لیے آڈیو، وڈیو اور دیگر حوالہ جات بھی لے سکتے ہیں۔
بالکل اسی طرح آپ گھر بیٹھے پبلک لائبریری کو بھی ایکسس کر سکتے ہیں اس میں موجود کتابوں کو دیکھ سکتے ہیں اور مطلوبہ کتاب کو آن لائن پڑھ سکتے ہیں یا ڈاؤن لوڈ کر کے پڑھ سکتے ہیں۔
اسی طرح تعلیمی ادارے بھی اپنے طلبہ اور طالبات کے لیے اپنی اپنی لائبریریوں کو ڈیجیٹل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور پاکستان میں بھی بہت سے ادارے یہ کام کر چکے ہیں، حکومت نے بھی بہت کچھ کیا ہے اور بہت کچھ ہو بھی رہا ہے۔ لمز یونیورسٹی ، پنجاب یونیوسٹی ، پنجاب ایجوکیشن بورڈ ، ورچیول یونیورسٹی یا اس طرح کے درجنوں اور ادارے، یا پھر لیڈنگ سکول سسٹمز یہ سب بہت عرصے سے اپنی اپنی لائبریریوں کو ڈیجیٹل کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور بہت حد تک کامیاب بھی ہیں اور ان کے طالبہ اور طالبات اپنی تعلیم کے حصول کے لیے ڈیجیٹل ریسورسس کا سہارا لیتے آ رہے ہیں۔ آج کے دور میں طلبہ اور طالبات کے لیے ڈیجیٹل بکس اور متعلقہ معلومات کو کمپوٹرائیز کئے بغیر کسی بھی تعلمی ادارے کا مزید سروائیو کر ناتقریبا نا ممکن ہے۔
دنیا آج ڈیجٹل لائبریری پارکس جیسے منصوبوں پر کام کر رہی ہے ، یعنی آپ کو سرسبز و شاداب پارکس میں چلتے پھر تے ، ڈیجیٹل بکس کھڑی نظر آئیں گی، اور اپنی سکرین پر چلتے ہوئے الرٹس سے یہ بتا رہی ہوں گی کہ ان میں کس طرح کی اہم معلومات موجود ہیں اور آپ کو انہیں کیوں پڑھنا چاہیے۔ وہیں راستے میں کھڑے کھڑے آپ کتاب کے تبصرے پڑھ سکتے ہیں، اور پڑھنے والوں کے کمنٹس بھی دیکھ سکتے ہیں، اور بوتھ بکس پر لگے ہوئے کیو آر کوڈ کے ذریعے اپ ان کتابوں کو اپنے موبائل میں کھول سکتے ہیں اور ، پبلک پرنٹنگ بوتھ سے آپ کسی بھی معلومات کا پرنٹ بھی حاصل کر سکتے ہیں، یا پھر مطلوبہ مواد اپنے موبائل میں ٹرانسفر کر سکتے ہیں۔
جدید ترین ڈیجیٹل سکرین، فیوچر کی بات نہیں ہے بلکہ آپ بہت سے پبلک پارکس، شاپنگ مالز، اور روڈز کے کناروں یا مارکیٹس میں یہ سکرینیں بہت پہلے سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔ اور بہت سے لوگ تو گذشتہ کئی سال سے انہیں پاکستان میں بھی مینوفیکچر کر رہے ہیں۔ اگرچہ یہ ابھی بھی کچھ مہنگی ہیں مگر بڑے اور درمیانے درجے کے اداروں کی قوتِ خرید سے دور نہیں۔
آپ کے ہاتھ میں جو موبائل ہے وہ صرف موبائیل ہی نہیں ہے بلکہ دنیا جہاں کی کتابوں اور معلومات کا مجموعہ بھی ہے، نہ صرف آپ کتابیں پڑھ سکتےہیں، بلکہ جس طرح کا مواد آپ کو پسند ہو یا جس مصنف کو آپ پڑھنا چاہیں ، بغیر کسی خاص محنت کے یہ آپ کے لیے ممکن ہے، اپنے پسندیدہ مصنف کے پیجز، گروپس ویب سائیٹس، ویڈیو چینلز بھی دیکھ سکتے ہیں، اور نہ صرف انہیں براہ راست پیغام بھیج سکتے ہیں بلکہ ان کے پروگرامز کا حصہ بھی بن سکتے ہیں۔
پیپر بک آپ کو کیا دے سکتی ہے اور ڈیجیٹل بک آپ کو کیا دے سکتی ہے اس کا موازنہ کرنا آج کے دور میں بنتا ہی نہیں ۔
ہم قران مجید کی ہی مثال لیتے ہیں، جو لوگ قران پڑھنا چاہتے ہیں، انہیں ڈیجٹل قران نے بہت کچھ فراہم کیا ہے، بہت سے سافٹ وئیرز موجود ہیں، خاص کر کے ایزی قران و حدیث جسے میں بہت عرصے پہلے استعمال کر چکا ہیں، مگر اس سے بھی بہتر ریسورسس موجود ہیں۔ یعنی آپ قران مجید کے 10 سے زیادہ تراجم اردو میں دیکھ سکتے ہیں اور انگریزی میں بھی ، اس کے علاوہ احدیث کی تمام اہم کتابیں بھی ترجمے کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں۔ پھر قران و احدیث کو مضامین کے حساب سے الگ الگ کیا ہوا ہے تو آپ کسی بھی مضمون کا اتنخاب کریں اور متعقلہ آیات یا احدیث پڑھتے چلے ہیں۔ مزید یہ کہ آپ کسی بھی آیت اور حدیث کو مطلوبہ ترجمے اور مطلوبہ تفسیر کے ساتھ کاپی کر کے نوٹس بھی بنا سکتے ہیں۔ اور مزید یہ بھی کہ آپ کسی بھی ترجمے کو نہ صرف پڑھ سکتے ہیں بلکہ اس کی تلاوت اور ترجمہ سن بھی سکتے ہیں۔ آخری بات یہ کہ اپ عربی یا اردو یا انگریزی لفظ سے سرچ بھی کر سکتے ہیں۔
اس قدر آزادی ، پیپر بک آپ کو فراہم کر پائے یہ بالکل ہی ناممکن سی بات ہے۔
پیپر بک تو دور کی بات، سب سے قیمتی پیپر کسی بھی ملک کی کرنسی ہے، اور آج پیپر کرنسی کو ختم کرنے کی بات موضوع بحث ہے اور چین تو ایک ہی سال میں کئی ٹریلین ڈالرز کی ٹرانزیکشن بغیر پیپر کرنسی کے کر چکا ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ بہت جلد وہاں پیپر کرنسی کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہو جائے گا۔
اب لوگ پیپر بک کو یاد کر کر کے روتے ہیں تو کیا کیا جا سکتا ہے، حقیقت یہی ہے کہ آج پیپر بک کے بغیر تو معاشرہ چلایا جا سکتا ہے مگر ڈیجٹل بکس کے بغیر معاشرہ نہیں چلایا جا سکتا ہے۔ دنیا جس دوڑ میں ہم سے بہت آگے نکل چکی ہے برحال ہمیں اسی دوڑ کا حصہ بننا ہے اب ہم کچھوے کی سپیڈ سے آہستہ آہستہ چلتے ہیں یا خرگوش کی سپیڈ سے دوڑتے ہوئے دنیا کا مقابلہ کرتے ہیں یہ ہم پر ہی منحصر ہے۔