“غذائی علاج” سے “تفریحی علاج” تک
رپورٹ: میاں وقارالاسلام، فاؤنڈر، وقارِ پاکستان لیٹریری ریسرچ کلاؤڈ
گذشتہ روزبروز ہفتہ 27 نومبر 2021 کو محمد ذوالقرنین مغل، ڈائیریکٹر جرنل، ایکمے انسٹی ٹیوٹ آف سیفٹی پروفیشنلز، ملتان کی سربراہی اور میاں وقارالاسلام ، فاؤنڈر وقارِپاکستان لیٹریری ریسرچ فورم کے تعاون سے مصنف ڈاکٹر سلطان محمود صاحب کی تصنیف “غذائی علاج” کی تقریب رونمائی کا اہتمام کیا گیا۔ اس تقریب سے پہلے ڈاکٹر سلطان محمود کئی باراس خواہش کا اظہار کر چکے تھے کے آپ کے علاقے میں ایک مشہور لائبریری ہے ” مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری” اور میں وہاں وزٹ بھی کرنا چاہوں گا اور اپنی کچھ کتابیں وہاں گفٹ بھی کرنا چاہوں گا۔ پروگرام اس بات پر مشروط تھا کہ اگر تقریب لمبی چلی تو ملتان میں ایک دن کا سٹے کرنا پڑے گا اور اگر جلدی ختم ہو گئی تو وہیں سے واپسی۔ دوستوں کے ساتھ وقت کا پتہ ہی نہیں چلا اور تقریب رات 9 بجے تک چلی۔ تقریب کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ اب ڈنر کے بعد تو واپسی مشکل ہو جائے گی۔ جب ٹھہرنے کا فیصلہ ہو چکا تو اب یہ کنفرم نہیں تھا کہ لائبریری کھلی بھی ہو گی یا نہیں۔ اور ایک پریشانی یہ تھی کہ غلام رسول صاحب جوان کے لائبریری ہیڈ ہیں ان کا نمبر نہیں مل رہا تھا ، شاید تبدیل ہو چکا تھا۔ پھر کوشش کی اور نمبر پھر بھی نہیں ملا۔ ذولقرنین مغل صاحب نے رائے دی کہ آپ گوگل کو انڈر ایسٹی میٹ کر رہے ہیں وہاں سے کال کریں، اور کال مل گئی اور پھر غلام رسول کا نمبر بھی مل گیا۔ اب میں نے ڈاکٹر سلطان صاحب سے کہا کہ اب اگر لائبریری بند بھی ہوئی تو کوئی مسئلہ نہیں ، غلام رسول جو کہ میرا انٹر کا کلاس فیلو بھی ہے اور ہمیشہ بھرپور تعاون بھی کرتا ہے اس نے بڑی گرم جوشی سے ویلکم کہا اور یہ بھی کہا کہ جب چاہے آ جائیں۔
 
ڈاکٹر سلطان محمود اور عاصم مشتاق ہمارے مہمان تھے، ایک رات وہ میلسی میں ٹھہرے تو میں نے کہا ڈاکٹر صاحب آپ کی وجہ سے آج میرے شہر کا قد دو فٹ بڑھ جائے گا اور یہ بھی کہا کہ کچھ وقت قبولیت کے ہوتے ہیں، میری خواہش تھی آپ میلسی ضرور آئیں اور وہ خواہش پوری ہو گئی۔ اتوار کے دن لائبریری جانے کے لیے تیار ہوئے ، میلسی سے تقریبا 30 یا 35 منٹ کا سفر ہے۔ جب لائبریری پہنچے جو غلام رسول صاحب پہلے سے ہی منتظر تھے۔ انہوں نے لائبریری میں موجود تمام نوادرات، بھی دیکھائیں، اور مختلف کتابوں کے سیکشنز بھی وزٹ کروائے۔ ڈاکٹر صاحب کی کتابیں بھی وصول کیں اور ان کا اندراج کر کے متعلقہ سیکشن میں رکھوا دیں۔ سوالات اور جوابات کا سلسلہ جاری رہا، لائبریری کے تمام تاریخی احوال بیان بھی کیے گئے اور ان کے شواہد بھی آنکھوں کے سامنے تھے۔ ویڈیوز اور پیکچرز کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ گھومتے پھرتے کب شام ہونے کو آ گئی پتہ ہی نہیں چلا۔ لائبریری میں ایک سیکشن ویڈیوز کا بھی ہے تو جاتے جاتے ہم نے سوچا کہ ایک نظر وہاں بھی ہو جائے۔ ویڈیوز سیکشن کے ساتھ ہی ایک سنوکر ٹیبل بھی پڑھی ہے تو سوچا، ریلیکس ہونے کے لیے تھوڑی بہت سنوکر بھی ہو جائے۔ ایک طرح سے انوکھی سنوکر کھیلنے کو ملی۔ ڈاکٹر صاحب کے فاؤلز ہم نے معاف کر دیے اور باقی تینوں کے نمبرز فاولز کی وجہ سے منفی ہو گئے اور آخر میں بچی ایک بلیک کوئین اور آخر شارٹ پر کوئین جیسے پہلے سے ہی ڈاکٹر صاحب کی ہونے کو تیار بیٹھی تھی۔ یوں ڈاکٹر صاحب کالی ملکہ پر فاتح ٹھہرے۔
 
سنوکر بھی ختم ہوئی اور دن بھی ڈھل گیا۔ اب یہاں سے واپسی کا پروگرام تھا تاکہ اندھیرا ہونے سے پہلے اگلے مقام پر پہنچ جائیں۔ میلسی آنا ہو اور سائفن کی مچھلی نا کھائیں تو یہ کچھ ادھورا رہ جانے کے مانند ہے۔ مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری سے میلسی کی طرف جاتے ہوئے راستے میں ہمارا آبائی گاؤں جلہ جیم بھی ہے، یہاں ہم چند منٹ رکے ، ٹنل فارمنگ دیکھی ، اور وہ جگہ بھی جہاں ہم گرمیوں میں مینگو پارٹی کرتے ہیں، ڈاکڑ سطان صاحب کو یہاں گرمیوں میں آنے کی دعوت بھی دی، اور پھر سورج ڈھلنے سے پہلے ہم لوگ سائفن پر تھے۔ ڈنر آرڈر کرنے سے پہلے میاں فخرالاسلام جنہیں ہیلتھ اور فوڈ کے معاملات پر خاصی دلچسپی ہے انہوں نے ڈاکٹر سلطان سے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے سوالات اور جوابات کا سلسلہ جاری رکھا اور اسے یاداشت کے طور پر ریکارڈ بھی کر لیا۔ پھر ڈنر کے بعد واپس میلسی جہاں گڑ والی چائے پر ہماری الوداعی ملاقات ہوئی۔ نہ ان کا جانے کا دل کر رہا تھا نہ ہمارا نہیں بھیجنے کا دل کر رہا تھا۔ مگر ڈاکٹر صاحب کی مصروفیت کی وجہ سے انہیں واپسی کا فیصلہ کی کرنا پڑا۔
 
غذائی علاج بہترین کتاب ہے اسے ضرور پڑھیں، مگر صرف غذا کافی نہیں اسے ہضم کرنے کے لیے چلنا پھرنا بھی بہت ضروری ہے اور کبھی کبھی تفریحی علاج سے بھی مدد ضرور لینی چاہیے۔
 
تعارف: مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری
مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری میلسی سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر سردار پور جھنڈیر میں واقع ہے۔ یہ لائبریری تقریباً سوا سو سال پرانی ہے۔1890ء میں سردار پور جھنڈیر کے ایک زمیندار ملک غلام محمد کی کتابوں سے اس کا آغاز ہوا۔1936ء تک انہوں نے ہزاروں کتابیں جمع کر لیں۔ ملک غلام محمد کی وفات کے بعد کتابیں وراثت میں اُنکے نواسے میاں مسعود احمد جھنڈیر کو ملی ملک غلام محمد کے نواسوں مسعود احمد اور ان کے بھائی میاں محمود احمد نے ملک غلام محمد سے محبت کا حق یوں ادا کیا کہ اس کتب خانے کو مسعود احمد ریسرچ سینٹر کا نام دے دیا اور پاکستان کی سب سے بڑی پرائیویٹ لائبریری بنا دیا۔ لائبریری پانچ ایکڑ کے خوبصورت پارک میں گھری ہوئی ہے۔ جس میں خوبصورت آبشاریں، فوارے، خوبصورت آرائشی اور زیبائشی پودے یہاں آنے والوں کو ایک انتہائی دلکش ماحول مہیا کرتے ہیں۔ لائبریری کا نیا کمپلیکس سال 2007ء میں مکمل ہوا جو 21 ہزار مربع فٹ ایریا پر محیط ہے۔ لائبریری میں آٹھ کشادہ ہال، آڈیٹوریم، ملٹی میڈیا ورک سٹیشن، کمیٹی روم اور ہاسٹل شامل ہے۔ لائبریری میں کل دس ملازم کام کر رہے ہیں۔ جن میں لائبریرین، نائب قاصد، مالی شامل ہیں۔ مسعود احمد ریسرچ سنٹر کی بڑی سعادت یہ بھی ہے کہ قرآنِ پاک کے گیارہ سو تینتیس قلمی نسخے بھی سنٹر میں محفوظ ہیں۔ اپنی مدد آپ کے تحت چلنے والی اس لائبریری کو نہ کسی بین الاقوامی ادارے کی سرپرستی حاصل ہے اور نہ ہی کسی طرح کے سرکاری فنڈز ملتے ہیں۔ صدارتی تمغا امتیاز یافتہ مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری پاکستان کی سب سے بڑی پرائیویٹ لائبریری ہے۔ لائبریری میں اس وقت دو لاکھ 35 ہزار کتب، ایک لاکھ 25 ہزار رسائل اور چار ہزار 50 مخطوطات موجود ہیں۔ ان میں نوے فیصد کتابیں خریدی گئی ہیں جبکہ دس فیصد کتابیں مختلف لوگوں کی طرف سے تحائف کی صورت میں دی گئی ہیں۔’مرکز تحقیقات فارسی ایران وپاکستان اسلام آباد نے ایک پی ایچ ڈی سکالر کو اس لائبریری کی کیٹلاگ تیار کرنے کا فریضہ سونپا جنہوں نے دس ماہ لائبریری میں کام کر کے یہ کام مکمل کیا، جسے حکومت ایران نے اس فہرست کو کتابی شکل میں 2005ء میں شائع کیا۔ سال 1980ء کے بعد ایم اے، ایم فل، پی ایچ ڈی کے محققین کو لائبریری سے مستفید ہونے کی سہولت دی گئی۔ جس کے بعد محققین مشرقی اور انگریزی زبانوں میں استفادہ کر رہے ہیں۔ ہر سال سینکڑوں ملکی و غیر ملکی دانشور، سکول، کالجز اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلبہ ادبی و دیگر نامور شخصیات اس لائبریری کا دورہ کرتی رہتی ہیں۔’لائبریری انتظامیہ کے مطابق دسمبر 2013ء میں پنجاب یونیورسٹی میں ہونے والی انٹرنیشل لائبریری کانفرنس میں لائبریری پر ایک پی ایچ ڈی سکالر نے انگریزی زبان میں ایک مقالہ جس کا عنوان مسعود جھنڈیر ریسرچ لائبریری تھا، پاکستان کے لیے سرمایہ افتخار پیش کیا۔ لائبریری میں اس وقت دو لاکھ 35 ہزار کتب، ایک لاکھ 25 ہزار رسائل اور چار ہزار 50 مخطوطات موجود ہیں۔14 اگست 2014ء کے موقع پر گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے لائبریری کے منتظم میاں غلام احمد جھنڈیر کو قومی ورثہ کی حامل تاریخی، دینی، ثقافتی اور ادبی کتابوں کو جمع اور محفوظ کرنے پر سول صدارتی تمغہ امتیاز کے اعزاز سے نوازا۔