مشینوں کا انسانوں پر قبضہ
مشینوں کا انسانوں پر قبضہ
تحریر: میاں وقارالاسلام
اگر دیکھا جائے تو آج کا انسان ایک طرح سے پہلے ہی مشینوں کے قبضے میں ہے۔ اور ٹیکنالوجی سے محبت کرنے والے ، نہ صرف اپنی دلچسپی بلکہ ٹیکنالوجی سے اپنی والہانہ محبت میں مشینوں کے یہ قبضہ فراہم کر چکے ہے۔ اور نہ صرف قبضہ فراہم کر چکے ہیں بلکہ نظر رکھے ہوئے ہیں کہ ٹیکنالوجی ان سے مذید اختیار مانگے اور وہ اپنا اختیار دیتے ہی چلے جائیں۔
ٹیکنالوجی کا ایک چہرہ بڑا روشن ہے، جس کے ذریعے ہمیں جدید ترین سہولیات سے مذین کیا جاتا ہے۔ پہلے انسان کے بہت سی چیزوں کو خود کار کیا، مگر انسان کو کم سے کم خود اُٹھ کر بٹن دبانا پڑتا تھا اور کام ہونے لگتے تھے۔ اس کے بعد ٹیکنالوجی نے مزید ترقی کی اور اس کے ہاتھ میں ریموٹ کنٹرول آ گیا، تو وہ جو بھی کرنا چاہتا تھا اس کے لیے اسے بس ریموٹ اٹھانے کی ضرورت پڑتی تھی۔
پھر انسان نے مزید ترقی کی اور اس کے پاس پروگرام ایبل مشینیں آ گئیں، بس مشین کو سیٹ کرنا پڑتا ہے اور مشین خود کام کرنے لگتی ہے، بس ایک چیز کا خیال رکھنا پڑتا تھا کہ، بجلی نہ جائے یا بیٹری کی پاور ختم نہ ہو اور تیسرا انٹرنیٹ کا لنک ڈاؤن نہ ہو۔ پھر انسان نے مذید ترقی کی، پاور کے بیک اپ، آ گئے ، انٹرنیٹ کے متبادل لنکس اور بہتر لنکس آ گئے اور بیٹریز پیکس اور پاور بنکس نے بھی پانی جگہ بنا لی۔
پھر دو چیزیں اور ہوئیں ، ایک تو روبوٹیکس نے اپنی جگہ بنانا شروع کی ، یعنی خوکار چلنے والی مشینیں ، روبوٹیک آرمز یا پھر پورے پورے روبوٹس۔ اور اسی طرح سے آواز یا پھر اشاروں سے چلنے والے سسٹم بھی ایجاد ہے گئے، ہزار طرح کے سینسرز نے جگہ بنانا شروع کی، ایسے سینسر جو فنگر تھم، فیس مگ، بول چال، نقل حرکت اور اشارے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، نہ صرف اس مشین کے آپریٹ کرنے والے کے اپنے اشارے بھی۔
100 سے زائید دنیا کی امیر ترین کمپنیاں ، اپنی ہزاروں قسم کی مصنوعات تیار کر کے بیٹھی ہیں، ان کے لیب میں تمام تجربات بھی مکمل ہیں اور ان کی سیلی کان ویلیز ان تمام مصنوعات کے گذشتہ 20 سالوں سے استعمال بھی کر رہی ہیں اور دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں یہ تحقیق بھی ہو چکی ہے کہ یہ مصنوعات کس طرح سے انسان کی زندگی کو یکسر بدل دیں گے اور ان مصنوعات سے مثبت اور منفی کس کس طرح سے اثرات ظاہر ہوں گے اور دینا کا معاشی نظام کس طرح سے تبدیل ہوگا۔
جب کمپیوٹر انسان کی زندگی میں شامل ہوا تو اس نے انسان کی زندگی کے ہر پہلو کو بدل کر رکھ دیا، سکولوں ، گھروں، دفتروں فیکٹریوں، دوکانوں ہسپتالوں ، سرکاری اور پرائیویٹ اور سوشل سیکٹر شاید ہی زندگی کا کوئی پہلو ہو جس پر کمپیوٹر اثر انداز نہ ہوا ہو۔ بڑے شہروں سے لےکر دور دراز کے چھوٹے چھوٹے گھروں اور یہاں تک کہ گھروں کے ایک ایک کمرے میں کمپیوٹر اپنی جگہ بناتا چلا گیا۔
پھر اس کے بعد موبائل نے اپنی جگہ بنائی اور بناتا ہی چلا گیا ، اور بہت جلد ہم نے دیکھا کہ شاید ہی دنیا میں کوئی ہاتھ بچا ہو جس کے ہاتھ میں موبائل نہیں ہے، کیا بچے ، کیا بوڑھے اور کیا نوجوان، موبائل ہاتھ میں نہیں تو کچھ بھی نہیں، اور اگر سال میں ایک یا دو بار موبائل بدلا نہ جائے تو بھی زندگی کا مزا جاتا رہتا ہے۔
کمپیوٹر کیا انڈسٹری بہت بڑی تھی، مگر موبائل کی انڈسٹری نہ صرف کمپیوٹر کی انٹرسٹری سے بہت بڑی تھی، بلکہ اس سے زیادہ منافع بخش بھی تھی اور اس سے زیادہ تیز بھی تھی۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے 1 جی سے 5 جی کچھ ہی سالوں میں ہمارے سامنے ہے۔
آگے آنے والا دور اس سے بھی زیادہ تیز ہے، آج کا نوجوان ہر وقت موبائل میں گھسا ہوا ہے، اور آگے آنے والے نوجوان انسانوں سے زیادہ موبائل اور اس کے لنک ہوئی چیزوں سے باتیں کر رہے ہوں گے۔ آنے والے نوجوانوں کے ہاتھ میں موبائل نہیں بلکہ موبائل سسٹم ہو گا جس سے وہ براہ راست باتیں کرتے ہوئے سوئیں گے اور باتیں کرتے ہوئے اٹھیں گے ۔ اور یہ سب ہمارے سامنے ہونے جا رہا ہے اور بہت جلد ہونے جا رہا ہے اور کسی حد تک تو ہو بھی چکا ہے۔
باتیں کرنے والی کاروں کے آنے سے پہلے باتیں کرنے والے کھلونے مارکیٹ میں آ چکے ہیں۔ کچھ کھلونے موبائل سے بھی آپریٹ ہوتے ہیں۔ اور موبائل سے ہم پہلے سے ہی بات کرنے کی سہولت رکھتے ہیں، کچھ لوگ اسے استعمال کرتے ہیں اور کچھ اسے استعمال نہیں کرتے ، مگر اب یہ عین ممکن کے کہ ہم اپنے گھر میں موجود تمام برقی چیزوں سے براہ راست بات کر سکیں اور انہیں اپنے موڈ اور مزاج کے مطابق پروگرام کر سکیں۔ تو کچھ اس طرح کی زندگی ہمارے سامنے رونما ہونے کے لیے تیار ہے۔
ایک طرف ہم پر مشینیں آدھا قابو تو پا چکی ہیں اور باقی کا آدھا قابو ہم پر بہت جلد پا لیں گی، مگر یہ وہ قابو ہے جو ہم مشینوں کو اس لیے دیں گے تاکہ وہ ہمیں روز مرہ کی سہولیات فراہم کر سکیں اور ہماری زندگی پہلے سے زیادہ سہولیات سے آراستہ ہو سکے۔
دوسری طرف حکومتیں بھی ہمیں انہیں مشینوں سے قابو کر رہی ہیںِ حکومت کے پاس ہمارے فنگر تھم اور فیس ٹیمپلیٹ پہلے سے ہی موجود ہیں ، جس کی وجہ سے ہمیں کسی بھی پبلک پلیس یا ملک سے باہر آتے جاتے باآسانی شناخت کیا جا سکتے ہے، اور اس طرح ملین آف ملین فیس ٹیمپلیٹس اور بائیو آئی ڈیز مشینوں کے پاس پہلے سے ہی موجود ہیں جنہیں حکومتیں اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی چلی آ رہی ہے۔ یعنی صرف ایک شخص کی بائیو آئی ڈی سے اس کے پورخاندان اور پورے شہر کے ریکارڈ کا آپس میں موازنہ کیا جا سکتا ہے۔
تیسری طرف ہم یہ ڈیٹا پرائیویٹ کمپنیوں کو بھی دے چکے ہیں جیسے موبائل کمپنیاں اور بنکس اور اسی طرح کی دیگر خدمات فراہم کرنے والی کمپنیاں اور موبائل میں موجود بائیو آئی ڈی ان ایبل ایپس۔
چوتھی طرف مشینوں کو انسان کی سیکیورٹی اور سیفٹی کے لیے بھی تیار کیا جا رہا ہے، سی سی ٹی وی پہلے سے گھروں، دفتروں اور گاڑیوں میں نصب ہو چکے ہیں۔ چین نے انہیں کیمروں کی کپیسٹی کو بڑھایا تو پورے کے پورے شہر کے ہر ایک بندے کی نقل و حرکت کو دیکھا جاتا رہا۔ اور اسی طرح سے کہیں بھی یہ کام با آسانی کیا جا سکتا ہے کیوں کہ بائیو آئیڈیز تو پہلے سے ہی حکومت اور ایجنسیوں کے پاس محفوظ ہیں۔
پانچویں طرف، ایسی مشینیں تیار کی جارہی ہیں جو کہ خود کار ہیں، یعنی پبلک ڈرون اناؤنسمنٹ سسٹم کے ذریعے لوگوں کے وارنگ دینا، گیٹ کنڑول سسٹم کے ذریعے لوگوں کو روکنا اور ریلیز کرنا، یہ بھی چین میں ابھی ابھی تجرباتی طور پر استعمال ہو چکا ہے۔ یعنی پبلک وارننگ سسٹم پہلے سے تیار ہے۔ خود کار سپرے ڈرونز اور خود کار سپرے مشینز اور اور خود کار کارگو سرویز بھی چین کے شہر وہان میں استعمال ہو چکی ہے۔ یہ تو خیر ایمر جینسی میں ایپڈیکس کے لیے استعمال ہوئی اور وہ بھی تجرباتی طور پر۔
خود کار روبوٹس، خود کار ڈرونز، خود کار گاڑیاں نہ صرف پبلک کو کنٹرول کرنے کے لیے تیار ہیں بلکہ انہیں جنگی حالات میں خود کار ہتھیاروں کے طور پر بھی تیار کیا جا سکتا ہے، یعنی مارکیٹس میں ایسے کیمرے لگ سکتے ہیں جن میں گن نصب ہو، اور خود کار ڈرونز اور خود کار گاڑیوں کو بھی خود کار ہتھیاروں سے لیس کیا جا چکا ہے۔ خود کار گاڑیاں 500کلو میٹر شہر سے باہر اور 130 کلو میڑ شہر کے اندر خودکار طریقے سے چلائی جا چکی ہیں۔
ایک طرف خود کار کیریرز ہیں، دوسر ی طرف خود کار ہتھیار ہیں اور تیسری طرف انسانوں کی بائیو آئیڈیز ہیں، اور چوتھی طرف ان کا سیٹلائٹ اور 5 جی نیٹورک کے ساتھ لنک ہے۔ یہ ایک مکمل خودکار ویپن سسٹم ہے جو نہ صرف بارڈر ٹو بارڈر فوجیوں کے درمیاں استعمال ہو سکتا ہے بلکہ شہروں اور دہیاتوں میں بھی استعمال ہو سکتا ہے، اور اسے جنگلوں، سمندروں اور دریاؤں تک بھی بڑھایا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ اس طرح کے روبوٹ تو پہلے سے ہی تیار ہو چکے ہیں جو پانی، ہوا، ریگستان، اور جنگلوں میں چلنے پھرنے، تیرنے اور اُڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
مشین ہمیں تین طرح سے کنٹرول کرتی جا رہی ہے، ایک سہولیات کے نام پر، اور دوسرا سیکیورٹی کے نام پر اور تیسرا معاشی ترقی کے نام پر۔
اللہ تعالی نے انسان کو جو دماغ دیا ہے اس کی ایک خاصیت ہے کہ وہ آگے کی طرف بڑھتا ہی چلا جاتا ہے، اور یہ دوڑ انسان کو آج یہاں تک لا چکی ہے، انسان کے آگے کہاں تک اور کتنا جانا ہے یہ تو وقت ہی بتا سکتاہے۔ مگر ایک بات طے ہے، زندگی رہے گی ، تو پہلے جیسی کبھی نہیں رہے گی۔ ہر دور پہلے دور سے بہت مختلف ہو کر سامنے آتا ہے، اور دنیا یہ تبدیلیاں پہلی دفعہ نہیں دیکھ رہی۔
Mian Waqar2022-07-17T22:41:27+00:00
Share This Story, Choose Your Platform!