ملتان سے سیالکوٹ تک علمی، ادبی اور ثقافتی دوستی کا سفر
تحریر: میاں وقارالاسلام
 
کرونا کی وجہ سے سماجی فاصلے اس قدر بڑھتے جا رہے تھے کہ ایسا لگتا تھا کہ دوستوں سے ملے ہوئے صدیاں ہی گذر گئیں۔ دوریاں تو تھیں ہی، مگر دوریاں بھی ایسی کہ کہیں سے جب بھی کوئی خبر ملتی تو بری ہی ملتی۔ ڈر اور خوف کی کیفیت اپنی جگہ تھی اور بھوک اور افلاس کی کیفیت اپنی جگہ تھی۔ اگر کہیں دوستوں کو اکھٹا کرنے کی کوشش بھی کی تو وہ بالکل بے سود رہی۔ جہاں بھی فون کرتے وہاں کوئی نہ کوئی پریشانی ہی دیکھنے کو ملتی ، اس لیے بہت چاہنے کے بعد بھی کسی خاص پروگرام کا انعقاد نہ ہو سکتا۔
 
گذشتہ ماہ جب محترم سہیل رضاؔ ڈوڈھی،بانی و چئیرمین، ادبی ڈھارس نے سیالکوٹ سے ملتان اپنی کچھ میٹنگز کے سلسلے میں آئے تو انہوں نے ایک چھوٹی کی محفل کے انعقاد کی بات کی تو جیسے یہ سب کے دل کی بات تھی۔ ایک دن کے نوٹس پر تمام تیاریاں پورے جوش اور ولولے سے مکمل ہو گئیں۔ اور ہماری توقعات سے بھی زیادہ مہمان بھی اکھٹے ہوگئے۔ مختلف سماجی، علمی اور ادبی موضوعات پر بات بھی ہوتی رہی، مہمانوں اور شرکاء کا تعارف بھی ہوتا رہا، شاعری اور مقامی موسیقی بھی پیش کی جاتی رہی، کیک کٹنگ بھی ہوئی، اجرک بھی تقسیم کی گئی اور جہاں تک ہو سکتا مہمانوں کی خاطر توضع بھی ہوتی رہی۔ مسلسل پریشانیوں اور تکلیفوں سے گزرنے کے بعد یہ پہلی دفعہ تھا جہاں ہمیں کچھ اچھا دیکھنے ،سننے اور کہنے کو ملا۔ ایسا لگتا تھا جیسے زندگی دوبارہ لوٹ آئی ہو۔
 
اس خوشگوار تبدیلی کو سب نے محسوس کیا اور اس سلسلے کو جاری رکھنے کا عہد بھی کیا۔ محترم سہیل رضاؔ ڈوڈھی نے تمام لوگوں کو سیالکوٹ آنے کی دعوت بھی دی اور شاید یہ ان کی دعوت کی قبولیت کا ہی وقت تھا۔ جیسے ہی سہیل رضاؔ ڈوڈھی صاحب واپس سیالکوٹ پہنچے تو ڈاکٹر سلطان محمود، ایم ڈی ایکو کئیر سروسس نے کہا کہ کیا آپ اسی طرح کا ایک اور پروگرام رکھ سکتے ہیں تاکہ میں بھی اس میں شرکت کر سکوں۔ ان کی کال ہمارے لیے سونے پر سہاگہ تھی۔ اور تقریبا ہفتہ یا 10 دن کے گیپ سے ہم نے ڈاکٹر سلطان محمود صاحب کے لیے بھی ایک تقریب کا اہتمام شروع کر دیا۔ سہیل رضا صاحب نے جس سفر کا آغاز کیا تھا اسے چار چاند لگ چکے تھے۔ یہ دوسرا پروگرام پہلے پروگرام سے بھی زیادہ بھرپور تھا اور شاید اس پروگرام کی وجہ سے ہمارے اعتماد بھی بحال ہوئے کہ اب لوگ زندگی کی طرف واپس آنا شروع ہو چکے ہیں۔ اور اسی بات نے ہماری حوصلہ افزائی کی اور ہم نے چھوٹے چھوٹے کئی پروگرامز کا سلسلہ شروع کر دیا۔
 
اب سہیل رضاؔ ڈوڈھی صاحب اس بات کے منتظر تھے کہ کب سیالکوٹ میں پرگرام کا انعقاد ممکن ہو۔ ان کی یہ خواہش جلد پوری ہونے کو تھی۔ ڈاکٹر سلطان محمود، عبدالرشید اعوان اور بہت سے اور دوستوں نے سیالکوٹ جانے کی حامی بھر لی، اور سہیل رضا صاحب نے بھی اپنی تیاریوں کا آغاز شروع کر دیا۔ جیسے ہی انہوں نے دوستوں سے رابطے شروع کیے تو جیسے بہت سے لوگ اس خوشگوار تبدیلی میں شامل ہونے کے لیے پہلے سے ہی تیار تھے۔ چھوٹی سی تقریب ، بہت سی تقریبات کی وجہ بن گئی۔ سہیل رضاؔ ڈوڈھی صاحب نے سب سے پہلے اقبال منزل سیالکوٹ وزٹ کا اہتمام کیا، اور پھر لنچ کے بعد علامہ اقبال لائبریری دو کتابوں کی رونمائی، اور دو شخصیات کی سالگرہ کا اہتمام بھی کر دیا ۔
 
ڈاکٹر سلطان محمود کی کتاب “غذائی علاج” کی تقریب ِ رونمائی سے شروع ہونے والی محفل محبوب صابر صاحب کی کتاب “برہنہ دھوپ کی تقریبِ پزیرائی کے بعد ایک بہت بہترین مشاعرے کے اختتام پر ختم ہوئی۔ جناب اعجاز عزائی صاحب کی صدارت میں نہ صرف تمام شاعروں بلال اسعد، فرانسس سائل، منیر جعفری، جاوید مہدی، طارق ملک، عثمان اقبال، ملک عتیق، عمرواعظ نے بہت عمدہ کلام پیش کیا، بلکہ تمام مہمانوں کا جوش اور ان کی بھرپور گرم جوشی بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ مہمانانِ خصوصی میں سعد ضیغم، محمد ارشد مرزا، میاں وقارالاسلام، اور محمد مختار علی صاحب شامل تھے جنہوں نے تمام شعراء کی بھرپور حوصلہ افزائی کی اور ان کے کلام کو سراہا، اور بہترین تقریب کے انعقاد پر سہیل رضاؔ ڈوڈھی،بانی و چئیرمین، ادبی ڈھارس کو مبارکباد دی۔
 
لیٹ ہوجانے کی وجہ سے مہمانوں نے سیالکوٹ میں ہی قیام کیا اور اگلے دن ملتان کی طرف روانہ ہو گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس پورے سفر کے مرکزی کردار جناب رضاؔ ڈوڈھی صاحب رہے۔
 
وقارِ پاکستان اور تمام ساتھیوں کی طرف سے ہم جناب رضاؔ ڈوڈھی صاحب کے تہہ دل سے مشکور ہیں اور ان کی سچی محبتوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ دعائیں اور نیک خواہشات
 
میاں وقارالاسلام