سنڈے سپیشل شخصیت محترم میاں وقار الاسلام
ملاقات : فریدہ خانم
سنڈے سپیشل شخصیت محترم میاں وقار الاسلام
¤سوالنامہ¤
آپ کا مکمل نام ?
میرا نام میاں وقارالاسلام ہے اور میں نے اپنا ادبی یا قلمی نام تبدیل نہیں کیا اس لیے میرا قلمی نام بھی یہی ہے۔
تعلیم ?
ابتدائی تعلیم اپنے مقامی شہر میلسی کے گورنمنٹ پرائمری سکول میلسی سے حاصل کی، اور پھر گورنمنٹ ہائی سکول میلسی سے ہی میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ میٹرک کے بعد سی کام اور ڈی کام گورنمنٹ کمرشل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ سے مکمل کیا۔ انٹرنیشنل سکول آف مینجمنٹ سائنسز (آئی ایس ایم ایس)،نیوپورٹ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، یو ایس اے (لاہور کیمپس، پاکستان) سے 1999 میں ماسڑ آف بزنس ایڈمنسٹریشن ( مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم) کی ڈگری حاصل کی۔ بہاؤدین زکریا یونیورسٹی، ملتان،کامرس ملتان پاکستان گورنمنٹ کالج بیچلر آف کامرس (مارکیٹنگ) کی ڈگری حاصل کی۔
تاریخ پیدائش ?
17جنوری 1978
فیملی سٹیٹس ?
میری پیدائش ایک ایسی فیملی میں جہاں اقدار اور اصولوں کو ہمیشہ ترجیح دی جاتی تھی جس کی وجہ سے مجھے ہمیشہ اپنی فیملی کا تعارف کرواتے ہوئے فخر محسوس ہوتا ہے۔ میرا تعلق تحصیل میلسی، ضلع وہاڑی کی ایک سرائیکی آرائیں فیملی سے ہے ۔ ہمارے اکثر رشتہ دار بنیادی طور پر زراعت کے پیشہ سے منسلک ہیں۔ ہماری زیادہ تر زمینیں اپنے آبائی علاقہ جلہ جیم میں ہیں۔
میری شادی17 فروری 2009 کو ہوئی۔ میرے تین بچے ہیں دو بیٹے اور ایک بیٹی ، بڑے بیٹے کا نام میاں اسماعیل وقار ہے جس کی عمر 9 سال ہے اس کے بعد دوسرے نمبر پر بیٹی جس کا نام مریم وقار ہے جس کی عمر 8سال ہے۔ سب سے آخر میں چھوٹا بیٹا جس کا نام میاں یحیی وقار ہے جس کی عمر 2 سال ہے۔
میرے والد کا نام میاں عبدالسلام ہے وہ ایک تجربہ کار وکیل ہیں۔ میری والدہ ہاؤس وائف ہیں، وہ زندگی میں ہر موقع میری حوصلہ افزائی کا ایک بڑا ذریعہ رہی ہیں۔ ہم چاربھائی ہیں ۔ بھائیوں اور والدین کی طرف سے ہمیشہ خاطر خواہ سپورٹ حاصل رہی ہے۔
آباؤ اجداد کی تاریخ حکیم میاں جلال الدین لاہوری سے شروع ہوتی ہے۔ حکیم میاں جلال الدین لاہوری، مغلیہ سلطنت کے سرکاری حکیم تھے ، اس کے علاوہ مغل سلطنت کے سیاسی اور مذہبی مشیر بھی تھے۔ شہنشاہ محمدجلال الدین اکبر تیسرا مغل شہنشاہ تھا ۔ جب اس نے 1582ء میں دینِ الہٰی متعارف کرایا تو مختلف مسلم علماءکرام کے ساتھ حکیم میاں جلال الدین نے بھی اس کی بھر پور مخالفت کی اور یہ کہہ کر بادشاہ کو چھوڑ دیا کہ یہ اسلام کی توہین ہے۔ حکیم میاں جلال الدین اس کے بعد لاہور منتقل ہو گئے اور اپنی حکمت لاہور میں ہی شروع کر دی۔
بادشاہ جہانگیر چوتھا مغل بادشاہ تھا اور اپنے باپ کے برعکس ایک روایتی مسلمان تھا۔ لیکن پھر بھی اس نے دینِ الہٰی پر اصرارکیا۔ شیخ احمد (مجدد الف ثانی کے طور پر جانے جاتےہیں) نے بھرپور مخالفت کی اور حکم ماننےسے انکار کر دیا۔جس کے نتیجے میں انہیں گوالیار فورٹ میں قیدکر دیا ۔ حکیم میاں جلال الدین نے مکمل طور پر شیخ احمد کی تحریک میں حصہ لیا۔ تاہم دو سال بعد ہی شہنشاہ کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔
بادشاہ جہانگیر نے پھر صرف شیخ احمد کو رہا ہی نہیں کیا بلکہ واپس آگرہ بھی بلا لیا اورتمام غیر اسلامی قوانین جو شاہ محمد اکبر کی طرف سے لاگو تھے وہ بھی ختم کر دیے۔
بادشاہ جہانگیر نے حکیم میاں جلال الدین لاہوری کی سابقہ خدمات کے بدلے میں انہیں پرگنا ہانکڑا میں 10،000 ایکڑ اراضی سے نوازا۔ حکیم میاں جلال الدین لاہوری نے اپنی رہائش اور سیکورٹی کے لئے 20 کنال فورٹ تعمیر کیا۔ حکیم میاں جلال الدین لاہوری نے اپنی باقی زندگی مقامی لوگوں کی خدمت کے لیے وقف کر دی۔ انہوں نے تبلیغ کی اور علاقے میں اسلام کو فروغ دیا۔ اس علاقے میں ہندؤں اور سکھوں کی اکثریت تھی اور مسلمان اکثر تنازعات کا شکار ہوتے تھے۔ انہوں نے مسلم کمیونٹی کی حمایت اور سپوٹ کا کام شروع کیا۔ حکیم میاں جلال الدین لاہوری اور ان کی فیملی جنجوعہ آرائیں کے نام سے جانی جاتی تھی۔ حکیم میاں جلال الدین لاہوری کے بعد ان کی فیملی نے مسلم کمیونٹی کی سپورٹ اور دیگر فلاح کے کاموں کو جاری رکھا ۔
اسلامی جدوجہد کا سلسلہ جاری رہا، مختلف لڑائیوں میں مسلمان شہید ہوتے رہے جس کے نتیجے میں اس علاقے میں شہیدا کے نام پر 9 قبرستان قائم ہوئے جن کے نام یہ ہیں۔ 1۔ نورن شہید ،2۔ شادن شہید، 3۔ ابراہیم جتی ستی، 4۔ عالم شاہ، 5۔ محمدشاہ، 6۔ گل چند شہید، 7۔ حافظ اللہ بخش، 8۔ال بخش اور 9۔ جادے والا
آج یہ علاقہ جلہ جیم کے نام سے مشہور ہے۔ یہ نام میاں جلال الدین کے نام سے منسوب ہے۔1050 ہجری میں میاں جلال الدین لاہوری کے بیٹے حکیم رکن الدین نے بادشاہی جامع مسجد جلہ جیم کی تعمیر کی۔ تمام تاریخی قبرستانوں، بادشاہی جامع مسجد اور فورٹ کی نشانیاں آج بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
خصوصی مہارت کا شعبہ؟
میں ایک پروفیشنل مینجمنٹ کنسلٹنٹ ہوں اور گذشتہ کئی برس سے مختلف سیکڑز میں اپنی خدمات سر انجام دے چکا ہوں جن میں پبلک پے فون سسٹم، پبلک ایڈریس سسٹم، پبلک سرویلنس سسٹم ، پاور ڈائیگنوسٹک سسٹم ، برڈ ر رپیلنٹ سسٹم، ٹرانزٹ میڈیا سسٹم، پبلک ڈسپلے سسٹم ، ملٹی پرپز ایلیویٹرز اینڈ لفٹرز، ملٹی پرپز سیکورٹی ڈورز، بیریرز اینڈ ٹرنسٹائلز ، مارکیٹ سروے، مارکیٹ ریسرچ، کارپوریٹ ٹریننگ اینڈ ایچ آر ڈیویلپمنٹ، وومن ایمپاورمنٹ، چائلڈ لیبر، مائیکرو فنانس، لارج فارمیٹ پرنٹنگ، فارمیسی، ریئل اسٹیٹ، ٹرانسپورٹیشن اینڈ لاجسٹکس وغیرہ اہم ہیں۔ بڑے کاروباری اداروں میں نئی ٹیکنالوجیز متعارف کراونے کا ایک کامیاب ٹریک ریکارڈ ہے، جن میں کئی ملٹی ملین ڈالرز پراجیکٹس شامل ہیں۔
دنیا بھر کی متعددمعروف کمپنیوں کی جدید ایجادات پر ریسرچ بھی کی ہے۔ پاکستان کے لیے بہت سی بین القوامی کمپنیوں کی نمائندگی بھی حاصل کی اور پاکستان میں ان کے پراڈکٹس اور ٹیکنالوجیز کو متعارف بھی کروایا۔ بہت سی ایگزیبیشنز میں بھی حصہ لیا جن میں ، گوادر فرسٹ انٹرنیشنل یگزیبیشن 2018، جدہ کیریئر ایگزیبیشنز ، صنعتی ایگزیبیشنز ، پاور اینڈ انرجی ایگزیبیشنز ، پراپرٹی ایگزیبیشنز ، ایجوکیشنل ایگزیبیشنز ، پاک چین ایگزیبیشنز ، پاک بھارت ایگزیبیشنز ، اور آرٹ اینڈ کلچرل ایگزیبیشنز وغیرہ شامل ہیں۔ انٹرنیشنل ایگزیبیشنز میں شرکت کے لیے کمپنیز کوباقاعدہ کنسلٹنسی بھی فراہم کی۔
گوادر، مری لاہور، اسلام آباد، ملتان اور دیگر علاقوں کے رئیل اسٹیٹ پراجیکٹس کو پاکستان کے علاوہ متحدہ عرب امارات اور یورپ اور دیگر ممالک میں انٹرنیشنل مارکیٹنگ نیٹ ورک کے ذریعے متعارف بھی کروایا اور پاکستان میں کئی ملین ڈالرز کی انوسٹمنٹ کروائی۔ کئی کاروباری سیمینارز، ورکشاپس، نیو پراڈکٹ لانچ، سی ای او فورمز وغیرہ کا بھی اہتمام کیا۔ پریس ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں کے لئے کور سٹوریز، میڈیا رپورٹس، انٹرویو ز اورسکرپٹ وغیرہ بھی لکھے۔
تعارف:ادبی سر گرمیاں ?
میری پہلی کتاب کا نام “من کٹہرا “تھا جو سال9 200 میں منظر عام پر آئی ۔ کتاب کی رو نمائی ہوٹل سن فورٹ لاہور میں ہوئی اور پروگرام کی صدارت ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ نے کی۔ میری دوسر کتاب کا نام “مثلِ کلیات”تھا جو 2014 میں مکمل ہوئی۔ میری تیسری کتاب کا نام “شہرِ داغدار” ہے جو کہ 2016 میں مکمل ہوئی ہے۔ میری چوتھی کتاب جو کہ ابھی زیرِ طباع ہے اس کا نام “سوزِ محشر ” ہے۔
میری تین کتابیں: 1۔”من کٹہرا” 2۔” شہرِ داغدا ر” اور 3۔ “سوز محشر ” تینوں مل کر ایک عظیم تصور “اسلامک وے آف لائف” کو بیان کرتی ہیں۔ “من کٹہرا” ہمارے خود کو سمجھنے کے بارے میں ہے کہ ہم کس طرح بنائے گئے ہیں۔ “شہرِ داغدار” ہماری کائنات کے بارے میں ہے کہ کس طرح کائنات تخلیق ہوئی ہے۔ “سوزِ محشر” قیامت کے دن کے بارے میں ہے کہ زندگی کے بعد کیا ہو گا۔ مزید یہ کہ یہ تینوں کتابوں بالترتیب ” نفسِ امارہ” ، “نفسِ لوامہ ” اور نفس متمعئنہ پر بھی بات کرتی ہیں۔
ان تین کتابوں کے علاوہ میری ایک نظموں کی کتاب بھی ہے جو 2017 میں مکمل ہوئی جسے محمد علی احمد صاحب نے ” دل آج بھی مقروض ہے “کے نام سے مرتب کیا ہے۔ شاعری کی کتابوں کے علاوہ میں کالمز کی بھی ایک کتاب مکمل ہے جس کا نام ہے ” مائی لائف نوٹس” اور یہ 2018 میں مکمل ہوئی۔ 2019 میں ایم ایس نالج سیریز کے تحت میں شارٹ بائیو گرافی بھی مکمل ہوئی۔
ان پبلیکیشنز کے علاوہ میری ریسرچ پبلیکیشن سیریز بھی ہیں جو درج ذیل ہیں:
“مثلِ کلیات ریسرچ پبلیکیشن “ محترمہ ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ کی 30 کتابوں سے شاعری کا ایک مجموعہ ہے۔ “مثلِ کلیات” میں ڈاکٹر شہناز مزمل کی شاعری کے علاوہ ان کے ساتھ اور ادب سرائے انٹرنیشنل (دنیا میں معروف اردو ادبی فورم) کے ساتھ میرا 15 سالہ ادبی سفر نامہ بھی ہے ۔
فکرِ سلطان ریسرچ پبلیکیشن میں ڈاکٹر سلطان محمود صاحب ، مینیجنگ ڈائیریکٹر ایکو کئیر کنسلٹینسی سروسز کی 12 سے زیادہ پبلیکیشنز میں سے اہم کالمز کو شامل کیا گیا ہے ان کاملز میں ماحولیات، غذایات، صحت اور حالاتِ حاضر سے متعلق کالمز کو شامل کیا گیا ہے۔
وقارِ سخن ریسرچ پبلیکیشن سیریز
وقارِ سخن نے نام سے میری ایک ریسرچ پبلیکیشن سیریز ہے جس میں 500 سے زیادہ شعراء اور شاعرات کے سخن پارے اور مختصر تعارف شامل ہے اس سیریز کی 10 جلدیں مکمل ہو چکی ہیں ۔
نثری تصانیف کی تعداد اور نام؟
الف: بیسٹ لائف نوٹس ۔ ریسرچ پبلیکیشن سیریز
اردو کی شاعری کی کتابوں کو علاوہ میری ایک اردو کتابوںسیریز بھی ہے جس کا نام ہے “بیسٹ لائف نوٹس ریسرچ پبلیکیشن سیریز ”
بیسٹ لائف نوٹس اپنی نوعیت کا ایک منفرد کتابی سلسلہ ہے۔ ان کتابوں میں میری زندگی کے بہترین نوٹس کی کولیکشن ہے۔ کچھ نوٹس قرانِ مجید کے بارے میں ہیں یعنی جب میں قران پہلی دفعہ پڑھا تو کیا محسوس کیا اور بار بار پڑھنے کے بعد کس نتیجے پر پہنچا۔ پھر کچھ نوٹس حضرت محمدؐ کی ذاتِ اقدس کے حوالے سے ہیں، کچھ انؐ کی زندگی کے اہم پہلوؤں پر اور کچھ انؐ کے آخری خطبہ کے بارے میں۔
اسی طرح قائداعظم محمد علی جناحؒ کی زندگی کے کچھ اہم واقعات پر کچھ نوٹس میں اور کچھ علامہ اقبال ؒ کی زندگی کے حالات و واقعات پر شامل کیا ہے۔ پھر کچھ مولانا رومی کی حکایتیں اور کچھ دیگر مثالیں وغیرہ جن سے زندگی کے رہنما اصول ڈھونڈے جا سکتے ہیں ۔ اسی طرح ایک واقعہ مرحوم اشفاق احمد صاحب کی کتاب زاویہ سے بھی لیا گیا ہے۔
کچھ نوٹس میرے پروفیشن اور بزنس کے حوالے سے ہیں ، جو میں نے مختلف شخصیات کے ساتھ کام کرنے اور سیکھنے کے دوران قلم بند کئے تاکہ انہیں مزید لوگوں کی رہنمائی کے لئے سامنے لایا جا سکے۔ اسی طرح کچھ نوٹس کا تعلق میرے ادبی اور تعلیمی سفر سے ہے ، جو آج بھی میری رہنمائی کرتے رہتے ہیں۔
کچھ نوٹس کا تعلق پاکستان کے تاریخی، معاشی اور سیاسی پس منظر سے ہے۔ جن میں گوادر سی پورٹ، پاک چین اکنامک کوریڈور، پاک چین سیاسی، عسکری اور معاشی تعلقات اور پاکستان کے موجودہ اور مستقبل کے اہم ترقیاتی منصوبوں وغیرہ کی تفصیل شامل ہے۔ ان میں سے اکثر نوٹس ، میری گوادر سے متعلقہ اہم پبلیکیشنز سے ہے۔
بیسٹ لائف نوٹس میں 100 سے زیادہ لوگ اپنا کم یا زیادہ حصہ ڈالا ہے۔بیسٹ لائف نوٹس کی 10 جلد یں مکمل ہو چکی ہیں ۔
ب: گوادر سے متعلقہ پبلیکیشنز
اردو کی کتابوں کے علاوہ میری 10 دیگر کتابیں ہیں، جن میں 9 گوادر “نیوز بکس” شامل ہیں اور ایک گوادر “ہینڈ بک” شامل ہے۔ یہ کتابیں 150 سے زیادہ نیشنل اور انٹرنیشنل نیوز پیپرز سے نیوز کا تحقیقی مجموعہ ہے۔ نیوز کولیکشن کا تعلق براہ راست گوادر کے تمام میگا پراجیکٹس اور گوادر ڈیپ سی پورٹ سے ہے۔ علاوہ ازیں چین پاکستان اقتصادی راہداری سے متعلق بھی بہت سی نیوز شامل ہیں۔” گوادر ہینڈ بک” میں ضلع گوادر کی اہم معلومات گوادر پورٹ کی تفصیلات، اہم پراجیکٹس، گوادر کا تصویری سفر ، اہم نقشاجات، اہم اقدامات، اہم بیانات اور گوادر میں مستقبل کے منصوبوں کا احاطہ وغیرہ سب شامل ہے۔
پ: ایم ایس نالج سیریز
ایم نالج سیریز میں شارٹ بائیو گرافیز اور شارٹ انٹرویوز شامل ہیں، اس میں 100 سے زیادہ لوگوں کے تعارف اور 5 سے زیادہ لوگوں کی شارٹ بائیو گرافیرز پر کام مکمل ہو چکا ہے۔ ایم ایس نالج سیریز میں شامل ادبی ، کاروباری اور سماجی شخصیات اور ان کے ادارے اور فورمز شامل ہیں جن کی کورر سٹوریز کو بھی اس سیریز میں شامل کیا گیا ہے۔
لکھنا کب اور کیسے شروع کیا؟ محرک کیا تھا۔ (تفصیلی جواب ) ?
میری گُم نام شاعری کا آغاز تو شاید میرے ہوش سنبھالتے ہی میرے لاشعور کے کسی کونے میں ہو چکا تھا۔ یہ سلسلہ وقت کے ساتھ ساتھ جواں ہوتے احساسات اور جذبات میں رنگتا گیا۔ 1993 سے باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا، اُس وقت میری عمر تقریباِ 16 سال کے لگ بھگ تھی اور میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔ اسے کے بعد کی تفصیل ادبی سرگرمیوں میں بیان کر دی ہے۔
اچھا ادب کیسا ہونا چاہئے۔۔کیا آج کا ادیب اپنے فرائض پورے کر رہا ہے ؟؟
اچھا ادب دکھی عوام کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ معاشرے کے کمزور پہلوؤں کی نشاندہی کرتا ہے، عوامی مسائل کے حل وضع کرتا ہے، اچھی روایات کا تحفظ کرتا ہے، قومی ویلوز مضبوط کرتا ہے، باہمی ربط اور ہم آہنگی بڑھاتاہے ، معاشی و معاشرتی تناؤ کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ سماجی گراوٹ کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ادب کے اثرات بچوں سے لے کر بڑوں تک سب میں نظر آتے ہیں، پڑھنے کو اچھا ملتا ہے، سننے کو اچھا ملتا ہے، دیکھنے کو اچھا ملتا ہے، جس سے لوگوں کے ذہنی تناؤ بھی کم ہوتے ہیں اور عوام میں شعور بھی بڑھتا ہے۔ اور ایک وقت آتا ہے کہ قوم ایک باشعور قوم بن کر سامنے آتی ہے۔
اردو ادب سے وابستہ لوگوں سے سوال بھی ہے اور ایک پیغام بھی ، میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ عوامی شاعر کہاں گئے
جب ایوب خان کا دور آیا
تیرا پاکستان ہے نہ میرا پاکستان ہے
یہ اس کا پاکستان ہے جو صدرِ پاکستان ہے
اقتدار ایوب خان سے جنرل یحییٰ خان کو منتقل ہوا تو حبیب جالب نے اُن کو بھی اسی لب ولہجے سے مخاطب کیا کہ
تم سے پہلے وہ جواک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اُس کوبھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
حبیب جالب کا بھٹو کو “خراج تحسین”
میں قائد عوام ہوں
جتنے میرے وزیر ہیں سارے ہی بے ضمیر ہیں
میں انکا بھی امام ہوں میں قائد عوام ہوں
جنرل ضیاء الحق کا دور آیا تو حبیب جالب نے نئے آمر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ
ظلمت کو ضیاء صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا
اس ظلم وستم کو لطف وکرم اس دکھ کو دوا کیا لکھنا
آمریت کے بعد جب پیپلز پارٹی کا پہلا دور حکومت آیا اور عوام کے حالات کچھ نہ بدلے تو جالب صاحب کو کہنا پڑا
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھریں ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
بے نظیر کے بعد نوازشریف کا دور شروع ہوا اور اُنہوں نے عوام کے لئے اپنے بلند بانگ دعوے شروع کئے تو عوامی شاعر بیماریوں کی پوٹ بن گئے تھے مگر اُن سے رہا نہ گیا ۔ میاں نواز شریف نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں عوام کے لئے اپنی جان قربان کرنے کا مشہور بیان دیا تھا جس پر جالب نے کہا کہ
نہ جاں دے دو، نہ دل دے دو
بس اپنی ایک مل دے دو
زیاں جو کر چکے ہو قوم کا
تم اس کا بل دے دو
حبیب جالب
ظلم کے خلاف لکھنے کی روایات کم ہوتی جا رہی ہیں، سسکیاں لیتی ہوئی عوام کا کوئی پرسانِ حال نہیں ، اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ایوارڈز/وظائف؟
لائف ٹائم ایچیومنٹ ایوارڈز سال 2016 اینڈ 2017
نیازی گروپ آف کمپنییز، ادب سرائے انٹرنیشنل
بزنس ایکسی لینس ایوارڈز سال 2018 اینڈ 2019
ایکو کئیر کنسلٹینسی سرویسز (پاکستان)، ٹی ایس وائین ( برطانیہ)
ایجوکیشنل اینڈ لیٹریری ایوارڈز سال 2019 اینڈ 2020
سائی سینس (سعودی عرب)، ہیرا فاؤنڈشن (امریکہ)
آبائی شہر اور موجودہ رہائش ?
میرا ابائی شہر میلسی ہے، جو کہ ملتان کا ایک قدیم شہر ہے اور ضلع وہاڑی کی تحصیل ہے۔میلسی زراعت کےحوالے سے اپنی بہترین پہچان رکھتا ہے، یہ علاقہ مہندی ، گندم، کپاس، چاول، گنا،مکئی، آم، مالٹا،فالسہ ، جامن، کھجور جیسی بہت سی نعمتوں سے مالا مال ہے۔
میلسی شہر میں سڑکوں، نہروں،اور ریلوے کا وسیع نیٹ ورک موجود ہے، دریائے ستلج اور سائفن بھی شہر کی اہمیت کو دوبالا کرتے ہیں، پبلک پرائیویٹ ٹرانسپورٹ، میلسی بار کونسل، پبلک پرائیویٹ ہسپتال طلبہ اور طالبات کیلئے بہترین سرکاری اور نجی ادرے ، کمیٹی باغ اور سپورٹس کمپلیس بھی موجود ہیں۔
زراعت کے ساتھ ساتھ پولٹری ، فیشری اورلائیو سٹاک فارمنگ بھی علاقے کی معشیت میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔میرا تعلق یہاں کی آرائیں فیملی سے ہے، جو کہ اس علاقے میں پندرویں صدی سے آباد ہیں۔ حکیم میاں جلال الدین لاہوری نے اہم مغلیہ منصب کو خیرباد کہہ کر اس علاقے میں رہائش اختیار کی۔
پسندیدہ شعر/نظم/غزل ?
حمد باری تعالی
زباں ذکرِ الہی سے کبھی خالی نہیں ہوتی
ہوں جیسے بھی مرے حالات بدحالی نہیں ہوتی
یہاں زندہ دلوں پر ہی تو خوشیاں راج کرتی ہیں
اگر چھائی ہو مایوسی تو خوشحالی نہیں ہوتی
کبھی مردہ دلوں کی حسرتیں پوری نہیں ہوتیں
مگر ایمانِ کامل سے بداعمالی نہیں ہوتی
اگر منزل ہی باطل ہو ڈگر سیدھی نہیں ہوتی
مسافت راہِ حق پر ہو تو پامالی نہیں ہوتی
یہاں نظرِ جہاں دیدہ بہت مسرور ہوتی ہے
بدل ڈالے اگر دل سمت ہریالی نہیں ہوتی
غزل
اُبھرتے سورج کا سلام تیرے نام کر دیتا
دن کے سارے تام جھام تیرے نام کر دیتا
سردیوں کی دھوپ ساری گرمیوں کی چھاﺅں بھی
موسموں کی سرد شام تیرے نام کر دیتا
اختیار ہوتا گر اس بہار پر میرا
رنگ و بو کے انتظام تیرے نام کر دیتا
دل کی کیفیت کو میں جب بیان کر سکتا
حسرتوں کے سب کلام تیرے نام کر دیتا
قید میں جو کر سکتا ان حسین لمحوں کو
آنے والے سب ایام تیرے نام کر دیتا
شاعر: میاں وقارالاسلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پسندیدہ مشغلہ ?
میٹرک کے بعد میں نے سی کام میں داخلہ لیا تو مجھے کچھ ایسے شفیق اساتذہ ملے جنوں نے میرے دل میں کتاب کی محبت جگا دی۔ پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ میں نے کالج کی کتابوں کے علاوہ دوسری کتابوں کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔ ڈی کام مکمل کرنے سے پہلے میرے پاس بی کام کی تقریبا تمام اہم کتابیں موجود تھیں۔ پھر بی کام میں داخلہ لیا تو بی کام مکمل کرنے سے پہلے ایم بی اے کی تمام اہم کتابیں میرے پاس موجود تھیں۔ بی کام کے دوران مجھے دو ایسے اساتذہ ملے جنہوں نے میری کتاب سے محبت کو جنون میں بدل دیا۔ ان میں ایک تھے اصغر عدیم صاحب جو بی کام میں مارکیٹنگ پڑھاتے تھے اور دوسرے تھے جیوپیٹر کمپیوٹر کالج کے مالک ریٹائیرڈ ونگ کمانڈر جاوید اقبال صاحب۔
جب کتابوں کی محبت جنون میں بدلی تو میں نے باقاعدہ کتابوں کی کولیکشن شروع کر دی۔ کئی سالوں تک ہر ماہ چند نئی کتابیں خریدنا اور پڑھنا میرا معمول رہا۔ زیادہ تر کتابیں آئی ٹی ، سائینس اور مینیجمنٹ سے متعلقہ تھیں۔ وقت گزرتا رہا اور پھر میرے پاس لگ بھگ 300 سے زیادہ کتابیں اکٹھی ہو گئیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام سودی نظام سے ٹکرا جاتا ہے۔ تو کچھ ایسے ہی سوالات میرے ذہن میں تھے۔ ایک دن میں نے ایک مینیجمنٹ کے ایکسپرٹ سے پوچھا کہ یہ مینیجمنٹ میں تو ہمیں سارا بیبلیکل نالج دیتے ہیں تو انہوں نے بڑی سادگی سے جواب دیا کہ کیا وہ ہمیں قران پڑھائیں گے۔
پھر جب میں نے قران پڑھا، تو مجھے ایسا حیران کن تجربہ ہوا جو کبھی کسی کتاب کو پڑھ کر پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے میں نے خود کو کتابوں کے اندھیروں میں بند کیا ہوا تھا۔ اور یہ واحد کتاب تھی جو مجھے روشنیوں کی طرف کھینچتی چلی جا رہی تھی۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ میں اپنے آپ کو مسلمان ہی تب سے سمجھتا ہوں جب سے میں نے قران پڑھا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میں کوئی بہت اچھا انسان، یا مسلمان بن گیا ہوں۔ مگر زندگی کی بنیادی چیزوں کی سمجھ بوجھ مجھے صرف اور صرف قران سے ہی حاصل ہوئی ہے۔ قران نے مجھے پہلی بار یہ سمجھایا کہ جن چیزوں کو میں درست سمجھتا تھا وہ کتنی غلط تھیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کو یاد کرنا کیا ہوتا ہے اور اللہ کی یاد میں رونا کیا ہوتا ہے۔ یہ میری شخصیت میں ایک بہت بڑھی تبدیلی تھی جو مجھے قران سے حاصل ہوئی۔
ایسا نہیں کہ میں اب انگریزی کتابیں نہیں پڑھتا، بعد میں بھی بہت سی کتابیں پڑھیں مگر زندگی کا بنیادی فلسفہ قران کے علاوہ کہیں اور سے مل جائے یہ کسی طرح ممکن ہی نہیں۔
اگر میں نے قران نہ پڑھا ہوتا ، تو یقینا میں زندگی کو ویسے نہیں سمجھ سکتا تھا جیسے میں نے قران کو پڑھنے کے بعد سمجھا۔ شاید یہی وجہ تھی جس نے مجھے ایک مضبوط بنیاد فراہم کی جس کی وجہ سے میں نے زندگی کے بارے میں مزید جاننے اور سمجھنے کی کوشش کی۔ قران نے مجھے زندگی کے بارے میں لکھنا بولنا اور زندگی کے مختلف پہلوؤں پر بات کرنا سیکھایا۔ پھر جب ادبی لوگوں میں اُٹھنا بیٹھنا شروع کیا تو مضامین لکھنا بھی آ گیا۔ کتابوں کو پڑھنے کا جنون کب کتابوں کے لکھنے میں بدل گیا پتہ ہی نہیں چلا۔
انگریزی کتابیں ضرور پڑھیں، اپنی فیلڈ میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام حاصل کریں، مگر یقین مانیں آپ کو دل کا سکون قران کو پڑھے بغیر کبھی حاصل ہو ہی نہیں سکتا۔ اور جب قران پڑھ لیں تو پھر قران کے مختلف پہلوں پر اپنے انداز سے ضرور لکھیں۔ ہمارے اردگرد جو اخلاقی قدروں کی گراوٹ ہے اور ہمارے آس پاس جو اندھیرے ہیں وہ قران کی تعلیمات کے بغیرکبھی کم نہیں ہوں گے۔
دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قران پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق دے اور یہ بھی توفیق دے کہ ہم قران تعلیمات کے آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ ہمارے معاشرے کو ہماری سپوٹ کی شاید جتنی ضرورت آج ہے اتنی پہلے کبھی نہیں تھی۔ آج کے دور میں ہم جس طرح کی روشنیاں دیکھ رہے ہیں یقینا انہوں نے ہماری آنکھوں کو چندھیا دیا ہے اور ہم بہت سی برائیں کو دیکھنے سے قاصر ہیں جو ہم میں سرائیت کرتی چلی جا رہی ہیں۔ اللہ ہماری مدد فرمائے اور ہمارے معاشرے کو اپنی ہدایت کے راستے پر گامزن کرے۔ آمین
خواب ?
ویسے تو یہ دنیا ہم سب کے لیے ایک ہی دنیا ہے۔ دوسری طرف اگر تصور کیا جائے تو ہم ایک سے زیادہ دنیاؤں میں رہتے ہیں۔ جیسے ہمارے ذہن میں جنت اور دوزخ کا تصور ہے ویسے ہی ایک کچھ دنیاؤں کا وجود ہمارے دل میں ہوتا ہے اور کچھ دنیاؤں کا وجود ہمارے دلوں میں ہوتا ہے۔ جس طرح ہم اپنی دنیا کو خوبصورت دیکھنا اور بنانا چاہتے ہیں ویسے ہی ہم اپنے تصور کی دنیا کو بھی خوبصورت دیکھنا اور بنانا چاہتے ہیں جس کا وجود یا تو ہمارے دلوں میں ہوتا ہے اور یا پھر ہمارے دماغوں میں۔
جوں جوں ہم بڑے ہوتے ہیں ہماری حقیقی دنیا ہمارے سامنے رنگ بدلتی نظرآتی ہے اور اچھے، برے یا مشکل حالات سے ٹکراتی ہوئی بھی نظر آتی ہے۔ اسی طرح ہمارے اندر کی دنیا بھی حالات کا سامنے کرتے ہوئے مختلف انداز سے ہمارے سامنے آتی ہے۔ جس طرح ہم اپنے باہر کی دنیا کو مختلف روپ میں دیکھتے ہیں ویسے ہی ہمیں ہمارے اندر کی دنیا مختلف روپ میں ملتی ہے۔ بعض دفعہ یہ بدلتے ہوئے روپ ہم دوسروں کو بیان کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہتے ہیں اور بعض دفعہ ہم اسے بالکل بھی بیان نہیں کرپاتے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے تصور کی دنیا یا تو کھل کر باہر آ جاتی ہے یا پھر کہیں دبی سی حالات کی راکھ کے نیچے سلگتی رہتی ہے اور کوشش کرتی رہتی ہے کہ ہم حالات سے لڑتے رہیں اور اس کے کے وجود کو باہر لا سکیں۔
باہر کی دنیا ہمیں کچھ اور بنانا چاہتی ہے جسے کہ ڈاکٹر، انجئیر، وکیل، استاد یا پھر کوئی بھی اور کاروباری، سیاسی یا سماجی کارکن۔ اور ہمارے اندر کی دنیا ہمیں کچھ اور بنانا چاہتی ہے جیسا کہ مصور، شاعر، گلوکار، افسانہ نگار یا پھر فن یا پھر کھیل سے متعلق کچھ جیسا کہ کرکٹر، فٹ بالر یا کوئی کوئی بھی اور کھیل۔
باہر کی دنیا ہمیں پریکٹیکل دیکھنا چاہتی ہے مگر اندر کی دنیا ہمارے شوق کی تسکین چاہتی ہے۔ جس طرح ہمارا پریکٹیکل کریکٹر ہوتا ہے اسی طرح ہمارا ایموشنل کرکٹر ہوتا ہے۔
ایک موٹیویشن یا انسپائیشن ہم پر مسلط کی جاتی ہے اور ایک ہمارے اندر سے پیدا ہوتی ہے۔ یعنی ایک شخص اچھا دوڑ سکتا ہے مگر اس سے جمپنگ کروائی جاتی ہے یا پھر ایک شخص اچھی جمپنگ کر سکتا ہے مگر اس سے دوڑ لگوائی جاتی ہے۔
بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے اندر کے احساسات اور باہر کے محرکات ایک ہی پیج پر آ جائیں۔
ہماری باہر کی دنیا یہ زور لگاتی رہتی ہے کہ وہ ہمارے اندر جگہ بنا سکتے اور ہمارے اندر کی دنیا یہ زور لگاتی رہتی ہے کہ وہ باہر کی دنیا میں اپنی جگہ بنا سکے۔
جب ہم اپنے اندر کی کشمکش کو لوگوں کے سامنے لاتے ہیں تو ہمیں اس صورتِ حال کا مختلف انداز میں سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیوں کہ ہر انسان اس طرح کی صورتِ حال سے گزر چکا ہوتا ہے اس لیے وہ اپنے تجربات کے لحاظ سے اس کا جواب دیتا ہے۔ کچھ لوگ ہماری کشمکش کو پوری طرح دبانے کی کوشش کرتے ہیں، اور کچھ لوگوں کو دبا بھی دیتے ہیں، کچھ لوگ ہاں اور ناں کے درمیان رہتے ہوئے کوئی فیصلہ نہیں کر پاتے اور تیسرے لوگ وہ ہوتے ہیں جو ہماری کشمکش کو بہترین راستہ دینے میں کامیاب ہو جاتاہے ہیں۔
والدین اپنے بچوں کو اگر ڈآکٹر دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر اپنے بچے کی کسی اور خوبی کی طرف غور ہی نہیں کرتے یوں بچوں کی اندر کی دنیا وہیں دب جاتی ہے مگر مرتی نہیں اور وہ اپنی کشمش کا دائیں بائیں اظہار کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں بعض دفعہ خطرناک حالات کا سامنا بھی کرنا پڑ جاتا ہے کیوں کہ لازمی نہیں کہ ان کا سننے والا ان کے ساتھ مخلص بھی ہو۔ یا پھر انہیں کوئی دوست، استاد یا ساتھ ایسا بھی مل سکتا ہے جو ان کی کشمکش کو درست موڑ دے دے اور وہ شروع ہی سے درست راہ کا انتخاب کر پائے۔
بچپن کی بات ہے جب میری شاعری کو شاعری بھی نہیں کہا جا سکتاہے، جب میرے والد نے اس دیکھا تو کچھ خاص حوصلہ افزائی نہیں کی، فطری سی بات ہر کوئی بھی والد نہیں چاہے گا کہ اس کا بچہ اپنی تعلیم کو کمپرومائز کرے۔ شاید اسی وجہ سے آج تک شاعری میرا آخری شوق ہی رہی۔ مگر میں نے اس شوق کو کبھی مرنے نہیں دیا۔
شاعری میرے آخری شوق تک رہنے کے باوجود بھی مجھے بہت کچھ دے پائی، شاعری نے مجھے موقع دیا کہ میں اپنی اندر کی دنیا کو مسخر کر سکوں اور اپنے احساسات کو باہر لا سکوں۔ شاعری نے مجھے وہ انسان بھی بنا دیا جو مجھے میرے تعلیمی ادارے کبھی نہیں بنا سکتے تھے۔ شاعری میرے اندر محبت سے بھرے ہوئے جذبات کو لے کر چلی جس کی وجہ سے میں اپنے تک آتی ہوئی ہر محبت کو محسوس کر سکا اور اسی احساس کے ساتھ اسے لوگوں تک واپس بھی پہنچا سکتا۔ شاید اسی سفر میں میں نے اپنے رب کی تلاش بھی کی انہیں جذبات سے قران کو بھی پڑھا اور اسی جذبات سے لوگوں کو بھی سمجھا۔ شاعری اگر میری ہمسفر نہ ہوتی تو شائید ایک ادھورا پن میرے اندر ضرور رہ جاتا۔
جب میں کسی نئے لکھنے والے سے ملتا ہوں یا بات کرتا ہوں، تو اسے کبھی نہیں روکتا کہ وہ اپنے شوق کو دبنے دے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں کہ وہ اپنے اندر کی دنیا کو باہر لانے کی کوشش ضرور کرے اور ساتھ یہ مشورہ بھی دیتا ہوں کہ باہر کی دنیا بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ اندر کی دنیا، شوق اس حد تک بھی نہیں ہونا چاہیے کہ اس سے آپ کی تعلیمی، کاروباری، سماجی یا پھر نجی زندگی اثر انداز ہونے لگے۔ اندر اور باہر کی دنیا کا تواز بہت ضروری ہے کیوں کے توازن برقرار نہ رہے تو کچھ بھی برقرار نہیں رہتا۔
مقصدِحیات ?
بطور مسلمان ہمارا دوباہ جی اٹھنے پر یقین ہے اس طرح زندگی دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے ایک اس دنیا کی عارضی زندگی اور دوسری اگلی دنیا کی آخری زندگی۔ دونوں جہانوں کی کامیاب زندگی کے لیے ہمارا بنیادی فلسفہ ء ایمان ہی ہمارا فلسفہ ء حیات ہے ۔
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ : ترجمہ:نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔
اگر ہم ایمان پر قائم نہیں تو ہمارا فلسفہ ء حیات بھی قائم نہیں۔ اور اگر ہم اس ایمان پر قائم ہیں تو ہم ایک عظیم فلسفہ ء حیات پر کھڑے ہیں۔
اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان پیدا کیا، اور ہمارے ہاتھوں میں بہترین فلسفہ ء حیات دیا۔ دعا ہے کہ اللہ ہمیں اس فلسفہ ء حیات پر قائم رکھے اور ہمارے قدم مضبوط کرے اور ہمارا خاتمہ بھی ایمان پر ہو! اور یہ بھی دعا ہے کہ آخرت میں ہماری روح بھی کامل اطمینان پانے والی ہو جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
آیت نمبر 3: سورۃ فجر آیت 27-30
ارشاد ہوگا اے اطمینان والی روح۔ اپنے رب کی طرف لوٹ چل تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔ پس میرے بندوں میں شامل ہو۔ اور میری جنت میں داخل ہو۔آمین
اللہ کرے کہ ہماری روح اطمینان پانے والی روحوں کی فہرست میں ہو، اور ہمارا مقصدِ حیات پورا ہو۔
پسندیدہ کتاب ?
جب میں نے پہلی دفعہ قران ترجمے کے ساتھ پڑھا، تو سوچ میں پڑ گیا کہ یہی قران تھا جسے پڑھ کر صحابہ روتے جاتے تھے، پھر یہ سوچا کہ مجھ پہ تو ایسی کیفیت آئی ہی نہیں، پھر یہی سوچ کر قران دوبارہ پڑھنا شروع کیا، پھر وہ پہلی آیت آ ہی گئ جس پر انتہا کی رقعت قائم ہوئی اور 45 منٹ تک میں اس آیت سے آگے نہیں بڑھ سکا۔
پارہ نمبر 4، آیت نمبر 188، سورت ال عمران
لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَفْرَحُوْنَ بِمَآ اَتَوْا وَّيُحِبُّوْنَ اَنْ يُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوْا فَلَا تَحْسَبَنَّھُمْ بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ١٨٨
آپ ہرگز خیال نہ کریں کہ جو لوگ اپنے کئے پر خوش ہوتے ہیں اور اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ جو کام انہوں نے نہیں کئے ان پر ان کی تعریف کی جائے ان کے بارے میں آپ ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ وہ عذاب سے چھوٹ گئے اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔
یہ الفاظ میرے کانوں سے گزرتے اور میرے ماضی اور حال کے حالات میرے سامنے گھومنے لگتے، اگر مجھے کبھی کسی نے دھوکہ دیا، تو اس کے پیچھے جھوٹی تعریفیں ہی نظر آئیں، اور پروفیشنل لائف میں بہتر سے بہترپراگرس کے لیے ہمیں یا اپنی کمپنی یا اپنے پراڈکٹس یا اپنی سروس کی خاطر خواہ تعریف کرنی یا کروانی پڑتی۔ میری زندگی کی فلاسفی کو بدلنے کے لیے یہ ایک آیت کافی تھی۔
میں اپنے آپ کو اسی دن سے مسلمان سمجھتا ہوں، اسلام کی روح کیا ہوتی ہے، اللہ کو یاد کیسے کیا جاتا ہے اس کے لیے رویا اور تڑپا کیسے جاتا ہے، میری ذات اس طرح کی کسی بھی کیفیت سے سطحی طور پر بھی نا واقف تھی۔
قران پڑھیئے، دنیا میں ہماری ذات کو جھنجوڑنے کے لیے اس سے بڑی اور کوئی چیز نہیں اتاری گئی! اسی لئے اسے مضبوطی سے پکڑنے کا حکم ہے۔ ایک اور جگہ اللہ فرماتا ہے، کیا تمہیں پوری زندگی میں اتنا وقت نہیں ملا تھا، کہ ایک دفعہ قران پڑھ لیتے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو قران پڑھنے ، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے، اور اپنی ہدایت کے راستے پرثابت قدم رہنے کی طاقت بھی دے، امین۔
پسندیدہ شخصیت ?
انبیاء و رسل میں آخر اور خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کے بعد کوئی نبی نہیں ۔ اور اگر پسندیدہ شخصیت کی بات کی جائے تو بطورِ مسلمان ہمارے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کو تو کوئی پسندیدہ شخصیت ہو ہی نہیں سکتی۔
اگر ادب کی طرف آئیں تو ادب کی دنیا بہت وسیع ہے ، ادب کے آسمان پر ان گنت ستارے ہیں، ہر ستارہ اپنی آب و تاب سے چمک رہا ہے ، جسے دیکھیں اس کا اپنا ایک الگ انداز ہے۔ اٹھارویں صدی سے شرو ع کریں تو میر تقی میر، نظیر اکبر آبادی، مرزا اسد اللہ خاں غالب، محمد ابراہیم خان، ذوق اور بہادر شاہ ظفر جیسے بڑے نام دیکھنے کو ملتے ہیں۔
انیسویں صدی میں جھانکیں تو امیر مینائی، داغ دہلوی، الطاف حسین حالی، شبلی نعمانی، اکبر الہ آبادی، حسرت موہانی، جگر مراد آبادی اور جوش ملیح آبادی جیسے نام نظر آتے ہیں۔
آگے چلتے ہیں تو فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، قتیل شفائی، استاد دامن، حبیب جالب، ناصر کاظمی، منیر نیازی، مصطفیٰ زیدی ، احمد فراز، کشور ناہید، غلام محمد قاصر، پروین شاکر، ثمینہ راجہ، نوشی گیلانی اور ڈاکٹرشہناز مزمل جیسے کئی نمایاں نام نظر آتے ہیں، کس کا نام رکھیں اور کس کا چھوڑ دیں، ادب کے آسمان میں سب کا اپنا اپنا مقام ہے۔
نئے لکھنے والے ادب کے نئے افق تلاش کر رہے ہیں۔
انسان کا کتاب سے تعلق ختم ہوچکا ہے۔ کیا آپ اس سے متفق ہیں، نیز کتاب سے تعلق کیسے بحال ہوسکتا ہے ؟؟
قلم اور کاغذ کا رشتہ بہت پرانا ہے، شروع شروع میں اخبارات، بینرز، پلے کارڈز، کتابیں ہاتھ سے لکھی جاتی تھیں۔ جیسے جیسے ٹیکنالوجی نے ترقی کی قلم اور سیاہی ایک طرف رہ گئی اور پیپر پر ڈیجیٹل انک نے اپنی اجارہ داری قائم کر لی۔ آج شاید ہی کوئی اخبار اور کتاب ہو جو بغیر ڈیجیٹل پرنٹنگ کے مارکیٹ میں آتی ہے۔
دراصل جسے ہم ہارڈ نیوز پیپر یا ہارڈ پیپر بک کہتے ہیں اسے بھی سب سے پہلے ڈیجیٹل تیار کیا جاتا ہے اور تب ہی یہ ممکن ہو پاتا ہے کہ اسے پرنٹ کرکے مارکیٹ میں لایا جا سکے۔
ایک طرف قلم اور سیاہی کا رشتہ آج تاریخ کا حصہ ہے، دوسری طرف ڈیجیٹل بکس ترقی کرتے ہوئے ہماری سوچ سے کہیں آگے نکل چکی ہے۔ آج کی ڈیجیٹل بک صرف ڈیجیٹل بک ہی نہیں ہے بلکہ معلومات کا ایک وسیع سمندر ہے۔
آج ٹیکنالوجی نے ڈیجیٹل بک کو ایک نئی پہچان دے دی ہے، نہ صرف ڈیجیٹل بک کو موبائل ، لیپ ٹاپ، ٹیب، یا پھر کمپیوٹر سکرین پر پڑھا جا سکتا ہے بلکہ سنا بھی جا سکتا ہے، اور نہ صرف سنا جا سکتا ہے بلکہ کسی بھی مضمون سے متعلقہ ویڈیوز، اور حوالہ جات بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں کسی بھی لفظ کے معانی اور اس کے وضاحتی نوٹس بھی ساتھ ساتھ دیکھے جا سکتے ہیں۔
تحقیق کرنے والے لوگوں کے لیے ڈیجیٹل بکس کی افادیت کے اتنا بڑھا دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی متعلقہ مضمون کی 2 ڈی اور 3 ڈی بھی دیکھ سکتے ہیں، ورچیول ٹوور بھی کر سکتے ہیں، زوم ان اور زوم آوٹ کر کے بہت ہائی کوالیٹی میں کسی بھی تصویر، پراڈکٹ یا آبجیکٹ کو مزید گہرائی میں دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ بات صرف یہاں تک نہیں رکتی بلکہ وہ ان معلومات کو بک مارک کر سکتے ہیں ، کاپی کٹ اور پیسٹ کر سکتے ہیں اور مستقبل میں استعمال کرنے کے لیے محفوظ بھی کر سکتے ہیں۔
بات صرف ڈیجیٹل بک تک محدود نہیں رہی، بلکہ کہیں آگے نکل چکی ہے، دنیا کے بڑے بڑے میوزیمز، اور لائبریرز کو ڈیجیٹل کیا جا چکا ہے ۔ اور ڈیجیٹل بھی اس طرح سے کیا جا چکا ہے کہ آپ کہ آپ گھر بیٹھے تمام معلومات حاصل کر سکتے ہیں اور وہ بھی اسی طرح کے جیسے آپ خود وہاں گھوم پھر رہے ہیں۔
یعنی آپ میوزیم کو موبائل یا کسی بھی انٹرنیٹ ڈیوائیس سے ایکسس کریں اور میوزیم کے مختلف حصوں تک رسائی حاصل کریں پھر کسی بھی حصے میں موجود تصاویرز یا ماڈلز وغیرہ کو فوکس کر کے دیکھ لیں، بات صرف دیکھنے تک محدود نہیں ، آپ کسی بھی چیز کی مذید تفصیل حاصل کرنے کے لیے آڈیو، وڈیو اور دیگر حوالہ جات بھی لے سکتے ہیں۔
بالکل اسی طرح آپ گھر بیٹھے پبلک لائبریری کو بھی ایکسس کر سکتے ہیں اس میں موجود کتابوں کو دیکھ سکتے ہیں اور مطلوبہ کتاب کو آن لائن پڑھ سکتے ہیں یا ڈاؤن لوڈ کر کے پڑھ سکتے ہیں۔
اسی طرح تعلیمی ادارے بھی اپنے طلبہ اور طالبات کے لیے اپنی اپنی لائبریریوں کو ڈیجیٹل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور پاکستان میں بھی بہت سے ادارے یہ کام کر چکے ہیں، حکومت نے بھی بہت کچھ کیا ہے اور بہت کچھ ہو بھی رہا ہے۔ لمز یونیورسٹی ، پنجاب یونیوسٹی ، پنجاب ایجوکیشن بورڈ ، ورچیول یونیورسٹی یا اس طرح کے درجنوں اور ادارے، یا پھر لیڈنگ سکول سسٹمز یہ سب بہت عرصے سے اپنی اپنی لائبریریوں کو ڈیجیٹل کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور بہت حد تک کامیاب بھی ہیں اور ان کے طالبہ اور طالبات اپنی تعلیم کے حصول کے لیے ڈیجیٹل ریسورسس کا سہارا لیتے آ رہے ہیں۔ آج کے دور میں طلبہ اور طالبات کے لیے ڈیجیٹل بکس اور متعلقہ معلومات کو کمپوٹرائیز کئے بغیر کسی بھی تعلمی ادارے کا مزید سروائیو کر ناتقریبا نا ممکن ہے۔
دنیا آج ڈیجٹل لائبریری پارکس جیسے منصوبوں پر کام کر رہی ہے ، یعنی آپ کو سرسبز و شاداب پارکس میں چلتے پھر تے ، ڈیجیٹل بکس کھڑی نظر آئیں گی، اور اپنی سکرین پر چلتے ہوئے الرٹس سے یہ بتا رہی ہوں گی کہ ان میں کس طرح کی اہم معلومات موجود ہیں اور آپ کو انہیں کیوں پڑھنا چاہیے۔ وہیں راستے میں کھڑے کھڑے آپ کتاب کے تبصرے پڑھ سکتے ہیں، اور پڑھنے والوں کے کمنٹس بھی دیکھ سکتے ہیں، اور بوتھ بکس پر لگے ہوئے کیو آر کوڈ کے ذریعے اپ ان کتابوں کو اپنے موبائل میں کھول سکتے ہیں اور ، پبلک پرنٹنگ بوتھ سے آپ کسی بھی معلومات کا پرنٹ بھی حاصل کر سکتے ہیں، یا پھر مطلوبہ مواد اپنے موبائل میں ٹرانسفر کر سکتے ہیں۔
جدید ترین ڈیجیٹل سکرین، فیوچر کی بات نہیں ہے بلکہ آپ بہت سے پبلک پارکس، شاپنگ مالز، اور روڈز کے کناروں یا مارکیٹس میں یہ سکرینیں بہت پہلے سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔ اور بہت سے لوگ تو گذشتہ کئی سال سے انہیں پاکستان میں بھی مینوفیکچر کر رہے ہیں۔ اگرچہ یہ ابھی بھی کچھ مہنگی ہیں مگر بڑے اور درمیانے درجے کے اداروں کی قوتِ خرید سے دور نہیں۔
آپ کے ہاتھ میں جو موبائل ہے وہ صرف موبائیل ہی نہیں ہے بلکہ دنیا جہاں کی کتابوں اور معلومات کا مجموعہ بھی ہے، نہ صرف آپ کتابیں پڑھ سکتےہیں، بلکہ جس طرح کا مواد آپ کو پسند ہو یا جس مصنف کو آپ پڑھنا چاہیں ، بغیر کسی خاص محنت کے یہ آپ کے لیے ممکن ہے، اپنے پسندیدہ مصنف کے پیجز، گروپس ویب سائیٹس، ویڈیو چینلز بھی دیکھ سکتے ہیں، اور نہ صرف انہیں براہ راست پیغام بھیج سکتے ہیں بلکہ ان کے پروگرامز کا حصہ بھی بن سکتے ہیں۔
پیپر بک آپ کو کیا دے سکتی ہے اور ڈیجیٹل بک آپ کو کیا دے سکتی ہے اس کا موازنہ کرنا آج کے دور میں بنتا ہی نہیں ۔
ہم قران مجید کی ہی مثال لیتے ہیں، جو لوگ قران پڑھنا چاہتے ہیں، انہیں ڈیجٹل قران نے بہت کچھ فراہم کیا ہے، بہت سے سافٹ وئیرز موجود ہیں، خاص کر کے ایزی قران و حدیث جسے میں بہت عرصے پہلے استعمال کر چکا ہیں، مگر اس سے بھی بہتر ریسورسس موجود ہیں۔ یعنی آپ قران مجید کے 10 سے زیادہ تراجم اردو میں دیکھ سکتے ہیں اور انگریزی میں بھی ، اس کے علاوہ احدیث کی تمام اہم کتابیں بھی ترجمے کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں۔ پھر قران و احدیث کو مضامین کے حساب سے الگ الگ کیا ہوا ہے تو آپ کسی بھی مضمون کا اتنخاب کریں اور متعقلہ آیات یا احدیث پڑھتے چلے ہیں۔ مزید یہ کہ آپ کسی بھی آیت اور حدیث کو مطلوبہ ترجمے اور مطلوبہ تفسیر کے ساتھ کاپی کر کے نوٹس بھی بنا سکتے ہیں۔ اور مزید یہ بھی کہ آپ کسی بھی ترجمے کو نہ صرف پڑھ سکتے ہیں بلکہ اس کی تلاوت اور ترجمہ سن بھی سکتے ہیں۔ آخری بات یہ کہ اپ عربی یا اردو یا انگریزی لفظ سے سرچ بھی کر سکتے ہیں۔
اس قدر آزادی ، پیپر بک آپ کو فراہم کر پائے یہ بالکل ہی ناممکن سی بات ہے۔
پیپر بک تو دور کی بات، سب سے قیمتی پیپر کسی بھی ملک کی کرنسی ہے، اور آج پیپر کرنسی کو ختم کرنے کی بات موضوع بحث ہے اور چین تو ایک ہی سال میں کئی ٹریلین ڈالرز کی ٹرانزیکشن بغیر پیپر کرنسی کے کر چکا ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ بہت جلد وہاں پیپر کرنسی کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہو جائے گا۔
اب لوگ پیپر بک کو یاد کر کر کے روتے ہیں تو کیا کیا جا سکتا ہے، حقیقت یہی ہے کہ آج پیپر بک کے بغیر تو معاشرہ چلایا جا سکتا ہے مگر ڈیجٹل بکس کے بغیر معاشرہ نہیں چلایا جا سکتا ہے۔ دنیا جس دوڑ میں ہم سے بہت آگے نکل چکی ہے برحال ہمیں اسی دوڑ کا حصہ بننا ہے اب ہم کچھوے کی سپیڈ سے آہستہ آہستہ چلتے ہیں یا خرگوش کی سپیڈ سے دوڑتے ہوئے دنیا کا مقابلہ کرتے ہیں یہ ہم پر ہی منحصر ہے۔
گروپ کا پسندیدہ سیگمنٹ ?
ہمارے ہاں بہت ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اپنے اپنے میدان میں بہت کام کیا اور بڑا نام کمایا اور پھر اس دنیا سے چلے گئے ہمیں ایسے لوگوں کے شاید نام بھی معلوم نہ ہوں۔ ایسے لوگ جب بھی جاتے ہیں ایک خلا چھوڑ جاتے ہیں اور پھر ایک نسل کو دوبارہ صفر سے محنت کرنی پڑتی ہے کیوں کہ ہم انے ایسے شاندار لوگوں کے کام کو نہ تو اہمیت دی، نہ سیکھا، نہ اگے بڑھایا اور نہ ہی پریزرو کیا۔
چند سالوں میں کسی بھی فیلڈ میں پی ایچ ڈی کی جا سکتی ہے، اگر پی ایچ ڈی کر بھی لی جائے تو وہ تجربہ حاصل نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ لوگ کسی فیلڈ میں اپنی پوری زندگی لگا کر حاصل کرتے ہیں۔ ہم ایسے بہت سے لوگ ہر دن ضائع کر دیتے ہیں اور ہماری ترقی کا سفر پھر صفر سے شروع ہوتا ہے۔
ہم جن معاشروں سے علم اور آگہی ڈھونڈتے ہیں وہ ہمارے ہی علاقوں سے ہر سال طرح طرح کے ہیرے چوری کر کے لے جاتے ہیں اور ہم اپنی بے بسی کا منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ یا تو ہمیں اپنے مارولز کی پہچان کرنی پڑے گی اور ان کے تجربات کو محفوظ کرنا پڑے گا یا پھر ہماری محنتیں یوں ہی رائیگاں جاتی رہیں گی۔
جو لوگ کسی بھی فیلڈ میں مہارت رکھنے والے قومی ہیروز کے کاموں کو ایک جگہ اکھٹا کر رہے ہیں اور نوجوان نسل تک اسے پہنچانے میں معاونت کر رہے ہیں یقینا وہ ایک بڑا کام کر رہے ہیں۔ وہ ایسا ماحول اور ایسا پلیٹ فارم فراہم کر رہے ہیں جس سے نوجوان نسل کو یقینا فائدہ ہو گا اور انہیں اپنی منازل کے تعین میں آسانی ہوگی۔
گروپ کے لئے چند الفاظ/تجاویز ?
لکھنے والوں کی اگر پڑھنے والوں تک رسائی نہ ہو تو لکھنے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے، ہمارے دور کی زندہ تحریریں اپنے قلم کار کے ساتھ جیتے جی دفن ہو جاتی ہیں کیوں کہ ان کی رسائی پڑھنے والوں تک نہیں ہوتی۔ آپ لوگوں کے کام کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ آپ نے نئے دور کے ادب میں نئی روح پھونک دی ہے۔ آپ اپنے حصے کا کام باخوبی کر رہے ہیں، آپ لوگوں نے بہت اچھی روایت ڈالی ہے اس کام کو آگے بڑھنا چاہیے۔
اردو کے فروغ کے لیے ہمیں چاہیئے کہ جن لوگوں نے اردو ادب میں اپنی زندگی صرف کر دی ان کے کام کو ایک جگہ اکھٹا کیا جائے اور اسے اگلی نسل تک پہنچایا جائے تاکہ ہماری نئی نسل اپنے کام کا آغاز وہیں سے کرے جہاں سے موجودہ نسل اپنے کام کا اختتام کرے ۔ نہ کے نئی نسل کو اپنا کام پھر سے صفر سے ہی شروع کرنا پڑے۔
دعا گو! میاں وقارالاسلام
فاؤنڈر
وقارِ پاکستان لیٹریری ریسرچ کلاؤڈ
www.waqarpk.com
میڈیا ایڈوائزر
ادب سرائے انٹرنیشنل
www.adabsaraae.com
پرنسپل کنسلٹینٹ
مارول سسٹم
www.marvelsystem.com
ڈائیرکٹرآپریشن
نیازی گروپ آف کمپنیز
URL: www.niazigroup.com
Mian Waqar2022-07-17T21:55:29+00:00
Share This Story, Choose Your Platform!