منفرد شخصیت، انفرادی کتاب
منفرد شخصیت، انفرادی کتاب
تحریر: میاں وقارالاسلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تصنیف: میں اور مفتی جی
مصنف: محترمہ فرحین چودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی میں کچھ لوگوں کی اہمیت زندگی سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے لوگ زندگی کو جینے کا مقصد دیتے ہیں۔ زندگی کو اور خوبصورت اور بامعانی بناتے ہیں۔ انسان بہت سے انسانوں سے سیکھتا اور سمجھتا ہے۔ مگر کچھ انسان اپنے اندر ایک درس گاہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بیسٹ لائف نوٹس نے نام سے میری ایک بک سیریز ہے، جیسے میں نے کئی برس پہلے شروع کیا اور چند برس پہلے اس کی 10 جلدیں مکمل ہو گئیں۔ بیسٹ لائف نوٹس کا آغاز اسی بات سے ہوا کہ میں نے جس سے جو جو بات سیکھی جس سے میری زندگی کو نیا رُخ یا نئے معانی ملیں تو میں اسے قلم بند کرتا چلا جاؤں۔ ایک تو میں نے اپنی زندگی پر گہرا اثر ڈالنے والے لوگوں کی باتیں لکھیں، اور دوسرا، دوسرے لوگوں سے بھی معلومات اکھٹا کیں کی کس کی باتوں سے کس کی زندگی میں کیا فرق پڑا، اور اس طرح دوسرے لوگوں کی باتیں بھی اکھٹی ہونا شروع ہوئیں اور اس طرح 10 کتابوں کا مجموعہ اکٹھا ہو گیا۔
مگر سفر یہیں تک نہیں رُکا، میں ایسا سوچنے ، لکھنے اور مرتب کرنا والا اکیلا نہیں تھا، جتنا میں اپنی کھوج میں آگے بڑھتا گیا، دنیا اتنی ہی بڑی محسوس ہونے لگی اور احساس ہونے لگا کہ ہمیں کس قدر کم علم دیا گیا ہے۔ بعض دفعہ انسان کی ایک شخص کی کھوج میں پوری زندگی لگا دیتا ہے مگر پھر بھی اُس کی شخصیت کے پہلو پوری طرح سے عیاں نہیں ہوتے۔ علم ہے ہی ایسی چیز، یہ ایک سمندر ہے کہ ختم نہیں ہوتا ، یہ ایک پیاس ہے جو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔
محترمہ فرحین چودھری ، خود ایک باکمال شخصیت کی مالک ہیں، اور یہ جس شخصیت سے متاثر ہوئیں ہیں یقینا وہ کسی درس گاہ سے کم نہیں ہیں۔ جب انسان علم کی خواہش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے باکمال انسانوں کو وسیلہ بنا دیتا ہے جو اپنی ذات میں علم کا سمندر ہوتے ہیں۔ اور پھر دیے سے دیا جلتا ہے، روشنی سے روشنی پھیلتی ہے اور انسان کے اندر اور باہر سے جگمگانے لگتا ہے۔
محترمہ فرحین چودھری جب بولتی ہیں تو لگتا ہے ان کے لفظوں پر ان کے استادوں کی شفقت ہے، اور ان کی آنکھوں کی چمک بتاتی ہے کہ انہوں نے اپنے استادوں سے وفا کی ہے۔ اور ان کا اعتماد بتاتا ہے کہ وہ کتنی ثابت قدم رہی ہیں۔ شمع خود ہی نہیں جلتی، شمع ضرور کسی نہ کسی چراغ سے ٹکرائی ہوتی ہے۔ ہم جو فیض یاب ہوتے ہیں ، یہ فیض کہیں سے تو آتا ہوگا۔ علم ہے ہی ایسی روشن اور مقدس چیز، یہ انسان کو نکھارتی ہی چلی جاتی ہے۔ شاید اسی لیے ہم پر علم فرض کیا گیا ہے کہ ہم دنیا کے رازوں کو پہچانیں ، تاکہ ہم اللہ کے رازوں کو پہچانیں ، تاکہ ہمیں شکر گزار ہوں۔ اللہ کا فضل تو ہمارے چاروں طرح مختلف شکلوں میں ہر وقت موجود رہتا ہے مگر پوری طرح سے فیض یاب وہی لوگ ہو پاتے ہیں جو باادب ہوتے ہیں۔ محترمہ فرحین چودھری کی کتاب اس بات کی بھی عکاس ہے کہ وہ کس قدر باادب ہیں۔
ہر انسان مشکلوں اور پریشانیوں میں گھرا ہوا ہے، مگر کچھ انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے پریشانیاں بانٹنے سے پریشانیاں ختم ہوجاتی ہیں یا پھر کم تو ضرور ہو جاتی ہیں، اور شاید ان کے پاس ہماری مشکلوں کا حل ہوتا ہے، جب بھی ان سے بات کرتے ہیں تو کوئی نہ کوئی رستہ نکل آتا ہے۔ ایسے لوگوں کا کردار زندگی کے اندھیروں میں روشنی جیسا ہوتا ہے۔ محبت اور عقیدت کے رشتے ہمارے آس پاس ہی ہوتے ہیں ، اب یہ ہم پر منحصر ہوتا ہے کہ ہم اپنے لیے ایسے محسن تلاش کرتے ہیں جو ہماری زندگی کو آسان بنائیں، یا پھر ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جو ہماری مشکلوں کو اور بڑھا دیں۔ منزلیں انہیں ہی ملتی ہیں جو راستوں کی کھوج میں رہتے ہیں۔
محترمہ فرحین چودھری کی اور مفتی جی کی باتیں پڑھ کر لگتا ہے جیسے وہ ہمیشہ کسی نہ کسی کھوج میں رہی ہیں۔ انسان کے اندر اگر سوال ہی پیدا نہ ہوں تو پھر اسے جواب کہاں سے ملیں گے۔ اس کتاب میں جس طرح کے مضامین کو شامل کیا گیا ہے ، اگر ان مضامین کے ناموں پر ہی غور کیا جائے تو محترمہ فرحین چودھری کے دل میں اُٹھنے والے بےقرار سوالوں کا پتہ چلنے لگتاہے۔
چند مضامین کے نام یہ ہیں، اللہ لوک کا ڈھابہ، دیواریں بولتی ہیں، بابے پیچھا کرتے ہیں ، چہرے بدلتی زندگی، عکسی کا لوک ورثہ ، سیکرٹ ایجنٹ، اصلی نقلی مسکراہٹ، تیسری آنکھ، سچ تو یہ ہے ، ٹھنڈا میٹھا چشمہ اور میگنٹ ممتاز مفتی۔ اس کتاب میں اور بھی مضامین شامل ہے، یہ چند نام صرف عکسِ خیال کی مناسبت سے لکھ دیے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ان مضامین نے نام اچھوتے ہیں ، بلکہ ان مضامین میں بہت سی گہری باتیں ہیں جو بڑے ہلکے پھلکے آسان انداز سے بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
بعض دفعہ زندگی کے بڑے بڑے مسائل کا حل بہت چھوٹی چھوٹی باتوں میں نکل آتا ہے، اور انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اتنی سطحی سی بات اس کے ذہن میں کیوں نہیں آئی۔ شاید بالکل اسی طرح جیسے قابیل نے ہابیل کو قتل کیا اور پھر اس کی لاش لیے پھرتا رہا اور اس کے ذہن میں اتنی سی بات بھی نہ آئی کہ زمین میں ایک گڑھا کھودے اور اس میں اپنے مقتل بھائی کو دفنا دے۔ روز مرہ کی پریشانیوں کا بوجھ بھی ہمارے کاندھوں پر رہتا ہے جب تک ہم انہیں دفنا نہیں دیتے۔ خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جنہیں زندگی میں ایسے رہنما دوست ملتے ہیں جو انہیں پریشانیوں کو دفنانے کا طریقہ بتاتے ہیں اور ان کی زندگی آسان بناتے ہیں۔ زندگی ایسے رہنما دوستوں کی مقروض رہتی ہے، اور ان کے قرض اتارنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے، کہ انسان ایسے دوستوں کے رہنما اصولوں کو قلم بند کرے اور ان کی اچھی، سچی اور پیاری باتوں کو دوسروں کی فلاح کے لیے پیش کردے۔
جب میں نے مفتی جی کے بارے میں پڑھا، اور یہ بھی پڑھا کے مفتی جی شہاب صاحب کے پیچھے تھے اور شہاب صاحب مفتی جی کے پیچھے تھے ، اور ان عظیم ہستوں کا یوں ایک دوسرے کے آگے پیچھے ہونا ایک تو علم، ادب اور روحانیت کی وجہ سے تھا، اور دوسرا تعلق پاکستان سے دل و جان سے محبت کی وجہ سے بھی تھا، تو ان کے احوال جو محترمہ فرحین چودھری نے بڑی تفصیل سے بیان کئے ہیں اور محترمہ فرحین چودھری نے جس محبت اور عقیدت سے ان احوال کو قلم بند کیا ہے، مجھے تو یہ بھی کوئی پہنچی ہوئی عظیم ہستی معلوم ہوتی ہیں۔ تو یقینا یہاں دو ہستیوں کے باب نہیں کھلتے بلکہ اس ہستی کا باب بھی کھلتا ہے جس نے یہ پوری داستان اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے اور اس داستان کے ہر حصہ ہر نظر رکھی ہے، بلکہ نہ صرف نظر رکھی ہے بلکہ اپنی محبت اور عقیدت بھی پیش کی ہے اور یہی محبت اور عقیدت کا جذبہ ان کی تحریر میں اور ان کے اندازِ بیاں میں صاف جھلکتا ہے۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لکھنے والا کچھ اور لکھ رہا ہوتا ہے مگر اس کا اندازِ بیاں کچھ اور کہنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ جیسے کہ محبت سے بھری ایک زندہ تصویر ہو، جو منہ سے تو انکار کر رہی ہو مگر اس کی آنکھوں سے چھلکے ہوئے سچے موتی اس کی سچی محبت کا پورا پورا اقرار کر رہے ہوں۔
محترمہ فرحین چودھری، اپنی تحریر میں جہاں جہاں مفتی جی کا ذکر کرتی نظر آتی ہیں وہیں وہیں، ان کے اردگر پڑی ہوئی چیزوں، مفتی جی سے جُڑے ہوئے رشتوں کو بھی پوری پوری اہمیت دیتی نظر آتی ہیں۔ محترمہ فرحین چودھری کو مہارت حاصل ہوئی ہے کہ وہ معمولی سے معمولی چیز کو غیر معمولی کرتی چلی گئیں ہیں۔ یہ بات ان کے تجسس اور ان کی بیقراری کو ظاہر کرتی ہے۔ اگر تجسس اور بے قراری نہ ہو تو انسان دنیا کے اچھے سے اچھے ماہر استاد سے بھی کچھ نہیں سیکھ پاتا۔ محترمہ فرحین چودھری کا تجسس اور ان کی بے قراری بتاتی ہے کہہ انہوں نے اپنے وقت کے ضائع نہیں کیا اور اپنے وقت سے اتنا ہی سیکھا ہے جتنا سیکھا جا سکتا تھا۔ اور پھر عظیم مرشد کا انتخاب تو انسان کو ولی بنا کر ہی چھوڑتا ہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ روحانی تعلق کبھی ٹوٹتے ہیں ہیں۔ یہ روحانی تعلق ہی تو ہے کہ ہم ایک امت ہیں اور ایک رسول سے جڑے ہوئے ہیں اور اتنے گہرے جڑے ہوئے ہیں کہ اس کی عظمت اور توقیر کے لیے جان بھی دے سکتے ہیں۔بزرگ ہستیوں کے ساتھ بھی روحانی تعلق رہتے ہیں، بزرگ ہستیاں جو محبت اپنے چاہنے والوں میں بانٹ جاتی ہیں وہ محبت ان کے چاہنے والوں کی شخصیت کی اساس بنتی ہے، اور جب ان کے چاہنے والوں کے پاس بیٹھتے ہیں تو ان کے بزرگوں کی خوشبو ان سے محسوس ہوتی ہے۔
مفتی جی آج ہم میں نہیں ہیں، مگر مفتی جی کا علم، ان کا ادب اور ان کی روحانی اساس ان کے چاہنے والوں کے دلوں میں محفوظ ہے۔ جیسا کے محترمہ فرحین چودھری جی کو ہی لے لیجئے، ان کی مفتی جی پر لکھی ہوئی کتا ب اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ انہوں نے مفتی جی کا علم،ان کا ادب اور ان کی روحانی اساس ، سب کو اپنے سینے میں سنبھال کر رکھا ہوا ہے، اور یہ سب کچھ اب قلم کے زریعے باہر آنا چاہتا ہے۔
محترمہ فرحین چودھری کو مفتی جی سے محبت ملی ہے ، اور مجھے وہی محبت ان کی کتاب “مفتی جی” کے ذریعے ملی ہے۔ یقیناَ یہ کتاب جہاں جہاں جائے گی اپنی محبت کا پیغام اپنے ساتھ لے کر جائے گی۔
یہاں ایک بات یہ بھی سیکھنے کی ہے، کہ جیسے انہوں نے اپنے محسن کی محبتوں کا قرض اتارنے کی کوشش کی ہے، بالکل اسی طرح اگر آپ نے بھی زندگی میں کسی سے کچھ سیکھا ہے سمجھا ہے اور اپنی زندگی کو بامعانی بنایا ہے تو قلم اُٹھائیے اور ان سے محبت کا قرض اُتار دیجئے۔ صرف اچھے بن کر چلے جانا اہم نہیں ہوتا، اہم یہ ہوتا ہے کہ ہمارے اچھے ہونے سے معاشرے کے لوگوں کی زندگیوں میں بھی تبدیلی آئے۔ جو ہم سیکھتے ہیں وہ ہم پر قرض ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس قرض کو ضرور اُتارئیں اور اپنے حصے کا کام ضرور کریں۔
میں نے یہاں اس کتاب کو پڑھا، سمجھا اور بہت کچھ سیکھا اور پھر اس کتاب سے پیغامِ محبت لیا اور آپ کے سامنے رکھ دیا، اب آپ اس کتاب کو پڑھیں، امید کرتا ہوں کہ آپ بھی اپنے حصے کا کام کریں گے۔
محترمہ فرحین چودھری صاحبہ کے لیے دعائیں اور نیک خواہشات، دعا گو، میاں وقارالاسلام، فاؤنڈر وقارِپاکستان، پرنسپل کنسلٹینٹ ، مارول سسٹم۔
www.waqarpk.com & www.marvelsystem.com
Mian Waqar2022-07-17T22:06:06+00:00
Share This Story, Choose Your Platform!