عہد شہناز
عہد شہناز
تحریر: میاں وقارالاسلام
اگر وقت کے چہرے سے دھول ہٹائی جائے تو ہمیں ہر عہد میں ایسے چمکتے ہوئے ستارے نظر آئیں گے جنہیں اللہ تعالی نے اپنے فضل سے چُن لیا اور انہیں کسی نہ کسی کام کے لیے خاص کر لیا۔ ہر بستی کے لیے رہبر اور رہنما بھیجے جو دن رات لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے انہیں خوشخبر ی سناتے تھے اور انہیں ڈر سناتے تھے تاکہ وہ اس کائنات کے رازوں کو سمجھیں اور ہدایت کا سیدھا راستہ اپنائیں۔ جن لوگوں نے اپنے رہنماؤں کی قدر کی ان کے لیے جنت کے باغات رکھ دیے گئے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اور جن لوگوں نے اپنے رہنماؤں کی قدر نہیں کی ان کے لیے دکھ دینے والا عذاب تیار ہے جس کا ایندھن مشرک اور منافق لوگ ہوں گے۔
یوں ہر عہد کسی نہ کسی کے نام کر دیا ۔ ہمارا عہد بھی اسی طرح ایک رہبر اور رہنما کا عہد ہے جسے نبوت کے سلسلے کی آخری مہر بنا کر بھیجا گیا جس کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا۔ ہمارا عہد حضور نبی کریم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا عہد ہے اور ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں ان کے عہد میں پیدا کیا گیا، اور ہم اس سے بھی زیادہ خوش قسمت ہیں کہ میں مسلمان گھرانے میں پیدا کیا گیا اور ان پر ایمان لانے کا شرف بخشا گیا۔ عہد حضور نبی کریم محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہمارے رہبر اور راہ نما ہیں اور قیامت تک آنے والے تمام لوگوں کے رہبر اور راہ نما رہیں گے۔ حضور نبی کریم محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جنت کی خوشخبری بھی سنائی ہے اور دکھ دینے والے عذاب سے ڈرایا بھی ہے۔ جس راستے کی طرف ہماری رہنمائی کی گئی ہے ہمارا ایمان ہے کہ وہ راستہ ہمیں جنت کی طرف لے کر جائے گا اور اگر ہم اس راستے سے بھٹکے کو پھر ہمارا راستہ دوزخ کے سوا دوسرا کوئی نہیں۔
اللہ ہم پر بڑا مہربان ہے ، اللہ نہیں چاہتا کہ ہمیں بال برابر بھی تکلیف ہو، بلکہ اللہ چاہتا ہے کہ وہ ہم پر فضل کرے، اللہ ہر عہد میں ہم پر فضل کرتا آیا ہے اور کوئی بھی لمحہ ایسا نہیں جو اس کے فضل سے خالی ہو۔ اللہ کا فضل بارش کی بوندوں کی طرح ہم پر برستا رہتا ہے، اور اس کا فضل ہر وقت ہمیں اپنی طرف بلاتا رہتا ہے۔ اللہ کے فضل سے صرف وہ لوگ محروم رہتے ہیں جن کی آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں یا پھر جن کے کان قوتِ سماعت کھو دیتے ہیں یا پھر جن کے دل مردہ ہو جاتے ہیں۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اللہ سے اس کا فضل مانگا جائے اور ہمیں مایوس لوٹا دیا جائے۔ باوجود کھلی گمراہی اور سرکشی کے اللہ تعالیٰ ہمیں مہلت دیتا رہتا ہے کہ کب ہم توبہ کریں اور اس کے فضل کی طرف لوٹ آئیں اور اپنے لیے اس راستے کا انتخاب نہ کریں جس کے تباہی اور بربادی کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔
اللہ کے فضل کی بہت سی نشانیاں ہیں، جیسے سب سے بڑا فضل تو یہ ہے کہ ہمیں مسلمان پیدا کیا گیا اور ہمیں حضور نبی کریم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہونے کا شرف بخشا گیا۔ اس کے علاوہ بھی اللہ کے فضل کی ان گنت نشانیاں ہیں ۔
جیسے، ہمارے پیدا ہونے سے پہلے ہم پر ہونے والے فضل کا اندازہ مقرر کر دیا جاتا ہے ، ہم کس گھرانے میں پیدا ہوں گے ، کون ہمارا باپ ہوگا، کون ہماری ماں ہو گی، کون ہمارے بھائی بہن ہوں گے، یہاں تک کہ کیا ہم نقص کے ساتھ پیدا ہوں گے یا پھر بغیر نقص کے۔ اور پھر یہ بھی کہ ہمارا عہد کب شروع ہو گا اور کب ہمارا عہد ختم ہو جائے گا اور پھر شاید وقت کی دھول ہمیں بے نام و نشاں کر دے گی۔
انسان کی نظر میں بہت سی چیزیں بے نام و نشان ہیں اور بہت سی چیزوں کے نام و نشان باقی میں مگر اللہ کے علم میں ہر چیزہے۔ وہ چیزبھی جو ہمیں نظر آتی ہے اور وہ چیز بھی جو ہمیں نظر نہیں آتی۔ وہ راز بھی جو انسان نے پا لیے ہیں اور وہ راز بھی جو انسان سے ابھی تک پوشیدہ ہیں ۔ اللہ کو ہر چیز کا علم ہے کہ کیا ہم کرتے ہیں اور کیا ہم اپنے ہاتھوں سے آگے بھیجتے ہیں۔ اللہ کے مقرر کیے ہوئے فرشتے ہر چیز کا حساب رکھتے ہیں اور اچھے یا برے کسی بھی عمل کو لکھنے سے نہیں چوکتے ۔ اور ہر شخص کا اعمال نامہ اللہ کے ہاں مکمل طور پر محفوظ ہے، اور ہر شخص اپنے اعمال نامے پر خود گواہ ہو گا۔
جب ہم سے پوچھا جائے گا کہ دنیا میں کتنے عرصہ رہے تو ہم کہہ اُٹھیں گے کہ ایک دن یا پھر اس سے بھی کم۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہمارا عہد بہت بڑا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ زندگی بہت ہی مختصر ہے اور پلک جھپکتے ہی گزر جاتی ہے۔ اگر ہم اپنے ماضی کی طرف دیکھیں تو سالوں پرانی بات بھی ایسے معلوم ہوتی ہے کہ جیسے ابھی کل ہی کی تو بات تھی۔اور بس پھر ایک کل آتا ہے جو ہمیں اپنے ساتھ لے جاتا ہے اور ہماری زندگی بھی ایک قصہ اور کہانی بن کر رہی جاتی ہے اور پھر وہ کہانی بھی بھلا دی جاتی ہے۔
مگر کچھ لوگوں کی کہانیاں یاد رکھی جاتی ہیں، کیوں کہ وہ اپنے نام کو اپنے عہد کے ساتھ اس طرح منسوب کر لیتے ہیں کہ ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے عہد کے ساتھ وفا کرتے ہیں۔ جس کام کے لیے انہیں خاص کیا جاتا ہے وہ اس کام کے ساتھ وفا کرتے ہیں۔ یوں ان کا عہد ایک سنہری عہد میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک عہد کا نام ہے ” عہد شہناز”۔
مادر ِ دبستانِ لاہور محترمہ ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ ، چئیر پرسن ، ادب سرائے انٹرنیشنل جنہیں بہت سے اعزازی ناموں سے بھی پہچانا جاتا ہے اور وہ بہت سے اداروں کی اعزازی چئیر پرسن بھی ہیں اور ان چالیس سے زیادہ کتابیں بھی منظر عام پر آ چکی ہیں اور وہ ہزاروں لکھنے اور لاکھوں پڑھنے والوں کی روح رواں بھی ہیں ان کے کام کو دیکھ کر لگتا ہے کہ انہوں نے اپنے کام اور اپنے عہد کے ساتھ خوب وفا کی ہے۔
آج کی بات ان کی وفاؤں کا ایک سلسلہ ہے جسے وہ گذشتہ کئی برسوں سے جاری رکھے ہوئے ہیں، اور اس سلسلے کے ذریعے وہ اپنے بے شمار سننے والوں تک روزانہ کی بنیاد پر اپنی آواز میں اپنا پیغام بھیجتی رہتی ہیں۔ آج کی بات کے حوالے سے ان کے پیغامات کے ایک حصے کو کتابی شکل میں محفوظ کیا جا چکا ہے۔ اور باقی حصوں پر بھی کام جاری ہے۔
جب کوئی شخص اپنے کام کے ساتھ وفا کرتا ہے تو اللہ بھی اس پر اپنے فضل و کرم کی بارش بڑھا دیتا ہے۔ یہ ان کی ذات پر اللہ کا خاص کرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں حضور نبی کریم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو اس حد تک بڑھا دیا کے ان کے کئی نعتیہ مجموعے بھی مکمل ہو گئے اور ان کی نعتوں کو باقاعدہ ٹی وی ، ریڈیو اور ان کے یوٹیوب چینلز پر بھی نشر کیا جانے لگا۔
نعتوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے حمد باری تعالی پر بھی کافی کام کیا ۔ نورِ فرقان منظوم مفہوم ان کی ایک ایسی تخلیق ہے جو اس بات کی گواہ ہے کہ اپنے رب سے کس قدر محبت کرتی ہیں ۔ اپنی اس تخلیق کو انہوں نے بارہ سالوں کی ان تھک محنت سے مکمل کیا ہے جس میں انہوں نے قرانِ مجید کے منظوم مفہوم کو اپنی شاعری کے انداز میں قلم بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس منفرد کام کو ہر سطح پر بھرپور پزیرائی ملی ہے اور اس کام نہ صرف تعلیمی اداروں میں سراہا گیا ہے بلکہ اس پر باقاعدہ تحقیقی کام بھی ہوا ہے۔ جو محبت انہوں نے اپنے قلم کے ذریعے اپنے لکھنے اور پڑھنے والوں کو بھیجی ہے یا پھر جس محبت کا اظہار انہوں نے اپنے قلم کے ذریعے اپنے رسول اور اپنے رب سے کیا ہے شاید اسی کو وسیلہ بنا کر نورِ فرقان کو ان کے دل پر اتارا گیا ہے۔اللہ کا فضل ان پر جاری ہے ، بے شک اللہ کے فضل کے بغیر تو کچھ بھی ممکن نہیں۔
محترمہ ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ نے اپنے عہد کی ہر چیز سے محبت کی ہے، اپنے رسول سے محبت کی ہے اپنے رب سے محبت کی ہے، اپنے استادوں سے محبت کی ہے، اپنے لکھنے اور پڑھنے والوں سے محبت کی ہے، اپنے کام سے محبت کی ہے، اپنے ادارے سے محبت کی ہے، اور اپنے زیرِ سایہ پروان چڑھنے والے ہزاروں قلم کاروں سے محبت کی ہے اور ان کی انہیں محبتوں کی وجہ سے انہوں نے اپنے عہد کو اپنے نام سے منسوب کیا ہے۔ اور اب ان کی یہ بے لوث محبت عشق کی منزلیں طے کر رہی ہے۔ انہوں نے اپنے آپ کو اپنے کام کے لیے وقف کیا ہے تو ان کا کام بھی آج ان کے حق میں بول رہا ہے۔
محترمہ ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ اپنے آپ کو اپنے عہد کا روشن ستارہ منوانے میں کامیاب رہی ہیں۔ اس ستارے نے میرے دل اور دماغ کو روشن کیا ہے، اور میں حدِ نظر ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھتا ہوں جنہوں انہوں نے اپنی علم و ادب کی روشنی سے منور کیا ہے۔ اور میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ ان پر لکھنے والوں نے ان کی تعریف میں بہت کچھ لکھا ہے۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی اپنے عہد کو رائیگاں نہ جانے دے اور اللہ اس کے کام کو رائیگا ں جانے دے۔ میں کچھ نہ بھی بولوں ، کوئی کچھ نہ بھی بولے تو ان کا کام ان کے لیے بہت کچھ بول رہا ہے۔ ان کا عہد ، ان کا ہی عہد ہے اور ان کے نام سے ہی جانا جائے گا۔
عہدِ شہناز کے لیے دل کی گہرائیوں سے دعا گو
میاں وقارالاسلام، فاونڈر وقارِ پاکستان
ادب سرائے انٹرنیشل سے ادب سرائے انٹرنیشنل چئیر پرسن فورم تک
…………………………………..
ادب سرائے انٹرنیشنل کی 30 سالہ ادبی مسافت کا سنہرا دور!
…………………………………..
ادب سرائے انٹرنیشنل ادبی پروگرامز کا باقاعدہ آغاز 1987 میں ادارے کی تشکیل کے ساتھ ہی ادب سرائے انٹرنیشنل ہیڈ آفس 125 ایف ماڈل ٹاون سے ہو گیا. یہ ایک سنہرے ادبی دور کا آغاز تھا. پانئیرز میں بہت سے نامور شعراء شاعرات اور ادب سے محبت رکھنے والے لوگ شامل تھے جنہیں ہم کبھی بھی بھلا نہیں سکتے۔
ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ نے بطور چئیر پرسن اپنے فرائض سنبھالے اور جناب فیصل حنیف صاحب کو ادارے کی صدارت کا عہدہ دیا گیا ان کے ساتھ جناب محمود سرور صاحب ادارے کے نائب صدر منتخب ہوئے یوں ادارے نے اپنا ابتدائی سفر شروع کیا۔ وقت کے ساتھ ادبی کارواں بھی بڑھتا گیا اور ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔
1990 میں جناب کرامت بخاری اور در انجم صاحبہ نے بطور ادب سرائے انٹرنیشنل جنرل سیکریٹری کے فرائض سنبھالے اور 1996 تک ادارے میں اپنی ادبی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ان کی ادبی خدمات کو ادارہ قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
شاہد بخاری کا نام بھی انہیں اہم ادبی ستاروں میں آتا جنہیں ہم نے اپنی ادبی دنیا میں ہمیشہ چمکتا دمکتا اور روشنیاں بکھیرتے ہوئے پایا ہے۔ ویسے تو شاہد بخاری صاحب عرصہ دراز سے ادب سرائے انٹرنیشنل سے منسلک رہے ہیں مگر 1997 سے لے کا 2010 تک ان کی گراں قدر ادبی خدمات جو انہوں نے بطور جنرل سیکریٹری فراہم کیں ادارہ انہیں بھی انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
انہوں نے ادب سرائے انٹرنیشنل کے ساتھ اپنے ادبی تعلق کا اظہار اور پذیرائی اپنی ایک ِخوبصورت غزل میں قلم بند کی ہے جس کا یہاں ذکر نہ کیا جائے تو بات ادھوری رہ جائے گی!
…………………………………..
محفل ِشہناز میں اشعار کا دفتر کُھلا
“رکھیو یا رب یہ در گنجینئہ گوہر کُھلا ”
…………………………………..
دوسری سوموار کو ہر ماہ کی ہر شام کو
لائبریری کا ملا کرتا تھا سب کو در کُھلا
…………………………………..
کیوں ادب کے در وہاں اُمت پہ اُس کی بند ہوں
“واسطے جس شہ کے غالبؔ گنبد ِبے در کُھلا “
…………………………………..
ہیں جمع گلزار، حماد، روحی، الیاس و بلال
سبزواری، سعدیہ یہ آسماں سب پر کُھلا
…………………………………..
زیدی و موسیٰ نظامی، فوزیہ، نجمہ، عظیم
واسطی، عثمان، باقی ،سب پہ یہ شہ پر کُھلا
…………………………………..
سائرہ، محمود، رزاقی، سحابی، طارق ، وقارو یمیں
واسطے جن کے ہے قصر ِشاعری کا در کُھلا
…………………………………..
کامراں، کشفی، امیں، عاصم، رضا و صادقہ
کیا سخن ور ہیں اکٹھے کیسا یہ دفتر کُھلا
…………………………………..
مَنفعت، نقوی، صنم، ناظر، سمیع، میجر نصر
ہیں سخن ور کیسے کیسے یہ نہ ٹی وی پر کُھلا
…………………………………..
سیفی و زیبی، خلش، اقبال، شوکت اورحریم
جن کے شعروں سے رہا ہے شعر کا محور کُھلا
…………………………………..
محشر و تسنیم کوثر، کاشف و رضیہ، لطیف
منفرد ہیں شعر گوئی میں نہیں ہم سر کُھلا
…………………………………..
ریحانہ، عذرا، نثار، وفا، خلش، سحر انبالوی
کس کو کہتے ہیں سخن ور ان سے یہ ہم پر کُھلا
…………………………………..
ہیں یہ جاوید، زیبی، طینوش، کرامت اور رفیق
جن کا ایک اک لفظ آتا ہے نظر گوہر کُھلا
…………………………………..
خاصی تُک بندی تو اب شاہؔد بھی کرنے لگ گیا
یوں سرائے میں ادب کی اُس کا یہ جوہر کُھلا
…………………………………..
شاعر: جناب شاہد بخاری
جنرل سیکریٹری ادب سرائے انٹرنیشنل : سال 1997 تا 2010
…………………………………..
2010 کے بعد جناب ندیم اظہر ساگر اور محترمہ صفینہ سلیم چوہدری نے بطور جنرل سیکریٹری
ادارے میں اپنی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا اور 2017 تک ادب سرائے کے 30 سنہری سال مکمل کئے۔
ادب سرائے اپنے تمام معاونین اور ہمسفر ادبی دوستوں کو اور ان کے ادبی جذبے اور لگن کو سراہتا چلا آیا ہے۔ اور جہاں تک ادارے سے ممکن ہوا تمام اہم شاعروں، ادیبوں، مصنفوں، افسانہ نگاروں، صحافیوں، ادبی تنظیموں کے سربراہوں اور ادب سے محبت رکھنے والے دوستوں کو شہناز مزمل ادبی ایوارڈز کے سلسلے میں شامل کرتا رہا ہے اور ان کی خاطر خواہ پزیرائی بھی کرتا رہا ہے۔
ہم اپنے کارواں کے ہر ستارے کے لیے دعا گو ہیں اللہ انہیں ہر میدان میں کامیابیاں اور کامرانیاں عطا فرمائے امیں۔
…………………………………..
محترمہ ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ کے نام ایک خوبصورت غزل
آپ میرا یقیں گمان ہیں آپ
لفظ و معنی کا اک جہان ہیں آپ
میں ادب کا ہوں ایک طالبِ علم
علم و دانش کا آسمان ہیں آپ
میرےلفظوں کی آپ حرمت ہیں
اور تخیل کی بھی اڑان ہیں آپ
آپ نے سوچ کو حروف دئیے
میرے احساس کی زبان ہیں آپ
میں سخن زار میں نکل آیا
راہبر آپ سائبان ہیں آپ
میرا قائم وقار آپ سے ہے
میری پہچان میرا مان ہیں آپ
شاعر: میاں وقارالاسلام
…………………………………..
ادب سرائے انٹرنیشنل نے شاید وہ بھی خواب پورے کئے جو اس نے کبھی دیکھے بھی نہیں تھے۔ ادب سرائے انٹرنیشنل بہت سے لوگوں کا مقروض ہے جن کی مسلسل محبت، لگن، محنت اور حوصلہ افزائی کی وجہ سے ادب سرائے انٹرنیشنل نہ تھکا، نہ چوکا اور نہ ہی ہارا اور اپنے سفر کو جاری رکھتے ہوئے اپنی منزل کی طرف گامزن رہا۔
…………………………………..
ڈاکٹر شہناز مزمل
(مادرِ دبستانِ لاہور)
چئیر پرسن ، ادب سرائے انٹرنیشنل
…………………………………..
ادب سرائے انٹرنیشنل چئیر پرسن فورم
…………………………………..
ادب سرائے انٹرنیشنل چئیر پرسن فورم کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ 30 سالہ محبتوں کے قرض کو اب اتارنا شروع کیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ادب سرائےانٹرنیشنل چئیرپرسن فورم میں سب سے پرانی ساتھی ادبی تنظیموں کو بطورِ پینل اسٹ ساتھ شامل کیا گیا۔ جن میں سید قمر عباس ہمدانی بانی دریچہ ادب ویلفئیر سوسائیٹی پاکستان، خالد نصر چئیرمین دبستانِ خالد نصر، پاکستان، ناصر ملک، سی ای او اردو سخن، میاں وقارالاسلام فاونڈر وقارِ پاکستان، باقر بلال فاؤنڈر اردو سوشل اہم ترین معاونین ہیں۔
ادب سرائے انٹرنیشنل چئیر پرسن فورم کے تحت پینل اسٹ آرگنازئیش ہمارے ساتھ شانہ بشانہ کام کر رہی ہے، اور اپنے اپنے ادبی حلقوں میں ادب سرائے انٹرنیشنل چئیر پرسن فورم کی نمائندگی کر رہی ہیں اسی طرح ادب سرائے انٹرنیشنل چئیر پرسن فورم بھی اپنے مقامی اور بین القوامی حلقہ احباب میں اپنے پرانے ساتھیوں کو پروموٹ کروانے میں اور محبتوں کے قرض اتارنے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔
آج ادب سرائے انٹرنیشنل کی تیسری نوجوان قیادت جس میں احمد فاروق خان، چئیرمین، ایمان فاروق خان، وائس چئیرپرسن، دانش بن ستار جنرل سیکٹری، شازیہ ستار جوائینٹ سیکٹری کے طور اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھال چکے ہیں۔ ادب سرائے انٹرنیشنل اپنی نئی نسل کے خوابوں میں اپنی منزل تلاش کر رہا۔ آج کی نوجوان نسل ہماری پہلی نسل سے زیادہ شعور اور بیداری رکھتی ہے، ان کے ولولے اور ان کا جوش بھی دیکھنے سے تعلق رکھتاہے۔ ہمیں امید ہے کہ جو کام ہم اپنی زندگیوں میں نہیں کر پائے ، نوجوان نسل ان خوابوں کی تعبیر بنے گی۔
ڈاکٹر شہناز مزمل
(مادرِ دبستانِ لاہور)
فاؤنڈر ،ادب سرائے انٹرنیشنل، چئیر پرسن فورم