گمنام ماہر تعلیمی کردار
تحریر: میاں وقارالاسلام
جہاں ہر بندہ خود غرض ہو وہاں ملک فلاحی ریاست کیسے بن پائے گا۔ پتا نہیں ملک فلاحی ریاست بن پائے گا یا نہیں! کم از کم تعلیمی ادارے تو فلاحی ادارے ضرور بننے چاہیں۔
اگر تعلیمی ادارے ہی کاروبار کی آڑ میں خود غرضی اور لالچ سے بھرے پڑے ہوں تو ہم کس طرح کی نئی نسل کو سامنے لائیں گے۔
بہت سے اداروں کا پہلے سے ہی بیڑا غرق ہے کوششوں کے نام پر کیا کوششیں ہوتی ہیں مجھے نہیں معلوم۔ کیا ہم صرف تعلیمی اداروں کو فلاحی ادارے نہیں رہنے دے سکتے۔
تعلیمی اداروں کے سربراہان کا صاحب کردار ہونا بہت ضروری ہے اس طرح کے عہدوں کا کسی غیر ذمہ دار شخص کے ہاتھ میں چلے جانا بد قسمتی ہے۔
بہت سے تعلیمی ادارے ہیں جہاں عملے کو ہراساں کیا جاتا ہے بچوں کو بھی ہراساں کیا جاتا ہے بچے اغوا اور قتل بھی ہوتے ہیں یا پھر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں۔
دوسری طرف تعلیم کو کاروبار بناتے بناتے تعلیم اتنی مہنگی ہو چکی ہے کہ عام آدمی صرف دال چینی سے ہی محروم نہیں ہو رہا بلکہ مناسب تعلیمی سہولیات سے بھی محروم ہو رہا ہے۔
تعلیم کے حوالے سے مجھے نہیں معلوم کے ہمارے ملک کی کیا منصوبہ بندی ہے مگر بہت سے ممالک ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو سب سے پہلے اعلی تعلیمی میدان میں منوایا اور دیکھتے ہی دیکھتے معاشی طاقت بھی بن گئے۔
تعلیم ہمیں بہت کچھ دے سکتی ہے مسئلہ یہ نہیں مسئلہ یہ ہے ہم تعلیم کو کیا دیتے ہیں کہ تعلیم ہمیں واپس کچھ دے پائے۔
ایسا نہیں ہے کہ سارے ہی تعلیمی ادارے برے ہیں مگر جو تعلیمی ادارے برے ہیں وہ بے لوث محنت کرنے والے اداروں کا بھی حق مار رہے ہیں۔
بدماش قسم سے تعلمی ادارے ہر سطح پر حاوی ہو جاتے ہیں چاہے قانونی مسائل ہوں یا کوئی اور معاملات ہوں شریف اور بے لوث اداروں سے دب جاتے ہیں اور ان سے ڈرے ڈرے رہتے ہیں۔
حکومت تعلیمی اداروں کا ماحول ٹھیک رکھنے کیلیے جرمانے لگاتی ہے جو طاقتور اداروں کے لیے معمولی بات ہے مگر محنت کرنے والے لوگوں کی حوصلہ افزائی ویسے نہیں ہوتی جیسے ہونی چاہیے۔
ایدھی کی طرح بہت سے لوگ ہیں جو خاموشی سے خدمت خلق میں لگے رہتے ہیں اور انہیں کوئی پوچھتا نہیں ایسے لوگوں کی خبر ہمیں تب ہوتی ہے جب وہ دنیا سے چلے جاتے ہیں۔
میں اگر تعلیمی میدان میں اپنے ان اساتذہ کو دیکھوں جنہوں نے میری اور میرے جیسے کئی لوگوں کی زندگیاں بدلی ہیں تو میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ ان کی زندگی طویل مسافت کے بعد بھی نہیں بدلی۔
ہمیں اپنے گمنام ماہر تعلیمی کرداروں کو پہچاننے کی ضرورت ہے انہیں عزت دینے کی ضرورت ہے ان کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے جنہوں نے ہماری ضروریات پوری کیں ہمیں ان کی ضروریات کا خیال رکھنا پڑے گا۔
بہت سے لوگ نیک نیتی سے تعلیمی میدان میں آتے ہیں اور بہت محنت کرتے ہیں اپنا مقام بھی بناتے مگر سرمایہ دار انہیں تباہ کر سکتا ہے کیوں کہ ہمیں بھی چمکتے ہوئے ادارے پسند ہیں۔
معاشرے میں اگر بد نیت ترقی کر رہے ہوں اور نیک نیت لوگوں کو اپنی نیک نیتی کا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہو تو ہمیں یہ جاننے میں مشکل نہیں ہونی چاہیئے کہ ہم کس سمت میں جا رہے ہیں اور ہمارے دائیں بائیں کون لوگ ہیں۔
ہم اللہ سے اپنی حالت پر رحم مانگتے ہیں مگر ہم خود اپنی حالت پر رحم کب کریں گے۔
دعاگو: میاں وقارالاسلام