مدر لینگویج فرسٹ
مدر لینگویج فرسٹ
ماں بولی زبان پہلے
تحریر: میاں وقارالاسلام
کہتے ہیں کہ ماں کی گود انسان کی پہلی درس گاہ، پہلا سکول، پہلا کالج اور پہلی یونیورسٹی ہوتی ہے۔
انسان کی شخصیت کا سوشل فیبرک، یا انسان کی شخصیت کا بنیادی ڈھانچہ ماں کی گود میں ہی تشکیل دے جاتا ہے۔
ہر زبان کا اپنا ایک ووکل سٹرکچر ہوتا ہے اسی طرح جو زبان ماں بولتی اس کا بھی ایک ووکل سٹرکچر ہوتا جو انسان براہ راست اپنی ماں سے سیکھتا ہے۔
بہت کم ایسا ممکن ہوتا ہے کہ انسان اپنی ماں بولی زبان جیسا ووکل سٹرکچر دوبارہ کسی دوسری زبان کا سیکھ پائے حالانکہ انسان بہت سی زبانوں میں کمال حاصل کر لیتے ہیں۔
شعور کے نام پر ہمیں کیسی جہالت پلائی جا رہی ہے کہ چاند پر پہنچنے کے خواب میں ماں کے چاند کو اپنی ماں بولی زبان کی قربانی دینی پڑتی ہے۔
غیر ملکی کمپنیاں جب ہمارے دیہی علاقوں میں اپنی مصنوعات بیچنے کے لیئے مارکیٹنگ کرتی ہیں تو اپنے اشتہارات مقامی زبانوں میں بنواتی ہیں تاکہ انہیں اپنی بات سمجھانے میں کم سے کم محنت کرنی پڑے۔
ہم اپنے ہی لوگوں کو وہ زبان سیکھاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی اپنی ہی باتیں ان کے والدین اور ان کے رشتے داروں اور ان کے علاقے کے لوگوں کو سمجھ میں نہ آئیں۔
دنیا کا کوئی جانور اپنی مادری زبان نہیں چھوڑتا اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسان جانور بن جائے۔
اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اس کی بہت سی خوبیوں کے ساتھ ایک خوبی یہ بھی ہے کہ انسان بہت سی زبانوں پر عبور حاصل کر لیتا ہے۔
آج انسان نہ صرف مختلف زبانوں پر عبور حاصل کر چکا ہے بلکہ اپنی زبانیں جانوروں کو اور جانوروں کی زبانیں خود کو سمجھانے کے مراحل طے کر رہا ہے
بہت سی زبانیں سیکھنے کی غرض سے یا پھر ترقی کی خاطر یہ ضروری نہیں کہ انسان اپنی ماں بولی زبان کو ترک کر دے بلکہ اسے چاہیے کہ دوسری زبانوں پر عبور حاصل کر کے اس علم کے ذریعے اپنی زبان کو مضبوط کرے اور اپنے لوگوں کو اگے بڑھنے میں مدد کرے۔
نئی نئی زبانیں سیکھنے کہ چکر میں ہمیں اپنی قومی اور علاقائی زبانوں کا سودا ہرگز نہیں کرنا چاہیئے۔
جو بات اپنی زبان میں اپنے لوگوں کو سیکھائی یا سمجھائی جا سکتی ہے وہ کسی اور زبان میں سمجھانا ممکن ہی نہیں۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ ووٹ لینے کے لیے، ٹیکس لینے کے لیے اور ملکی و غیر ملکی مصنوعات کو بیچنے کے لیے یہاں تک کہ اپنے اپنے عقیدوں کے پرچار کے لیئے تو علاقی زبانوں کو یاد کر لیا جاتا ہے مگر اسی علاقائی زبان کو علاقے کی ترقی، فلاح، اصلاح، تعلیم، شعور، معاشی آگہی اور سماجی بیداری کے لیئے استعمال نہیں کیا جاتا۔
کسی بھی ملک کا ملٹی لنگوول ہونا اس کی پہچان ہوتا ہے اور زبانوں کے مارنے سے زبانیں ہی نہیں مرتیں لوگوں کی پہچان اور شناخت بھی مر جاتی ہے اور اس سے جڑے ہوئے تمام خواب بھی چکنا چور ہو جاتے ہیں۔
خواب نہ رہیں تو انسان کوشش کس چیز کے لیے کرے گا۔ خواب زندہ رہنے چاہیں، خوابوں کے زندہ رہنے سے معاشرے زندہ رہتے ہیں، زبانوں کے زندہ رہنے سے ان زبانوں سے جڑے ہوئے معاشرے زندہ رہتے ہیں۔
کسی بھی علاقے میں مقامی لوگوں کے قدم مضبوط کرنے کے لیے ان کی مقامی زبانوں کا تحفظ اور ترویج بہت ضروری ہے۔ لوگوں پر اس سے بڑا ظلم کوئی نہیں کہ ان سے ان کی پہچان چھین لی جائے یا پھر کمپرومائز کروا لی جائے۔
ایسے بے زبان اور بے جان معاشرے جو اپنے نہیں رہیں گے ۔۔۔ تو پھر وہ کسی کے نہیں رہیں گے۔ لوگوں کو اپنا بنانے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں اپنی زبان واپس دی جائے۔ وہی زبان جو انہیں ان کی ماں کی گود سے بالکل مفت ملتی ہے اور اسے اضافی قیمت لے کر چھین لیا جاتا ہے۔
دعا گو!
میاں وقارالاسلام
Mian Waqar2022-07-17T22:55:21+00:00
Share This Story, Choose Your Platform!