سنڈے سپیشل شخصیت محترمہ ڈاکٹر شہناز مزمل
ملاقات : فریدہ خانم
سنڈے سپیشل شخصیت محترمہ ڈاکٹر شہناز مزمل
¤سوالنامہ¤
آپ کا مکمل نام ?
مادرِ دبستانِ لاہور، ڈاکٹر شہناز مزمل، چئیرپرسن : ادب سرائے انٹرنیشنل
اعزازی ناموں کی فہرست
وقارِ پاکستان لیٹریری ریسرچ فورم کی طرف سے مادرِ وقارِ پاکستان
بزمِ غالب پاکستان کی طرف سے مادرِ دبستانِ لاہور
الحبیب ادبی فورم کی طرف سے دخترِپنجاب
دبستانِ خالد نصر کی طرف سے مادرِثریا جبین ریڈرز کلب
اردو سخن کی طرف سے شہوارِ ادب
دریچہ ادب ویلفئیر سوسائیٹی پاکستان کی طرف سے خزینہء ادب
لاہور ادبی فورم کی طرف سے ردائے ادب
راستی کی طرف سے ستارہ ادب
تخیل کی طرف سے قندیلِ ادب
آگہی کی طرف سے رموزِ ادب
بزمِ اہل سخن پیرس کی طرف سے گوہرِ ادب
ار ژنگ کی طرف سے سرمایہ ء ادب
ہیرا فاؤنڈیشن کی طرف سے حریمِ ادب
مارل سسٹم نالج سیرز کی طرف سے نازِ پاکستان
اور دیگر اعزازی نام شامل ہیں
تعلیم ?
ایم اے لائبریری سائنس، سائنٹفک مینجمینٹ(نیدرلینڈ)
ڈی ایچ ایم ایس D.H.M.S
فیملی سٹیٹس ?
والد محترم حشر بدایونی شاعر افسانہ نگار کیانی کار تھے ادبی دنیا انڈیا کے ایڈیٹر تھے دادی اماں پھوپی جان اور امی جان کو بھی شاعری سے شغف تھا گھر میں بھی ادبی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا اوڑھنا بچھونا کاغذ قلم کتاب خالصتا ادبی ماحول تھا۔
والد: (مرحوم) ایم ایچ قادری حشر بدایونی ماہر معاشیات، شاعر، اسکالر، ایڈیٹر ادبی میگزین کا نام نئی دنیا
گرینڈ فادر: (مرحوم) سول انجینئر، ہومیوپیتھک ڈاکٹر،
دادی: (مرحوم) ہاوس ؤائف،
والدہ: (مرحوم) مصنفہ اور ماہر تعلیم
شوہر: (مرحوم) مسٹر سلطان احمد، ایک اسکالر، وکیل اور بزنس مین،
بچے: بڑی بیٹی نعمانہ فاروق، ماہر تعلیم اور ادب سرائے انٹرنیشنل کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر،
چھوٹی بیٹی ڈاکٹرمیمونہ عمران
FCPS (PAK)، MRCP(UK)، FRCP (UK)
اور ادب سرائے انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر
گرینڈ کڈز: احمد فاروق خان، چیئرمین، یوتھ ونگ، ادب سرائے انٹرنیشنل
اور ایمان فاروق خان ، وائس چیئرمین، یوتھ ونگ، ادب سرائے انٹرنیشنل۔
خصوصی مہارت کا شعبہ؟
موجودہ عہدے
چئیرپرسن ، ادب سرائے انٹرنیشنل
فاؤنڈر ،ادب سرائے انٹرنیشنل، چئیر پرسن فورم
ممبر سکالرشپ کمیٹی، ایجوکیشن یونیورسٹی لاہور
فاؤنڈر ،وقارِ پاکستان ڈیجیٹل لیٹریری ریسرچ کلاؤڈ
پرنسپل لیٹریری کنسلٹینٹ، مارول سسٹم لیٹریری ریسرچ ونگ
چیف ایمبیسیڈر، سوشو آن،اردو سوشل نیٹ ورک
سرپرست، دریچہ ادب ویلفئیر سوسائیٹی پاکستان
سرپرست، سلطان ویلفئیر ٹرسٹ
سرپرست، دبستانِ خالد نصر
سرپرست، قادری فاؤنڈیشن
سرپرست، یافر ٹی وی
گذشتہ عہدے
منتظم ادبی مجلہ مخزن، قائد اعظم لائبریری لاہور
پروگرام آرگنائزر، قائداعظم لائبریری، لاہور
اسسٹینٹ ڈائیریکٹر لائبریری، آکائیو ونگ ایس اینڈ جی اے ڈی، لاہور
پروگرام آفیسر، قائداعظم لائبریری، لاہور
ریسرچ ایسوسی ایٹ، سی آر ڈی سی، لاہور
لائبریری مینیجر، گورنمنٹ ماڈل ٹاؤن لائبریری، لاہور
لائبریرین، گورنمنٹ اسلامیہ کالج فار وومن، لاہور
تعارف:ادبی سر گرمیاں ?
ادب سرائے انٹرنیشنل ادبی پروگرامز کا باقاعدہ آغاز 1987 میں ادارے کی تشکیل کے ساتھ ہی ادب سرائے انٹرنیشنل ہیڈ آفس 125 ایف ماڈل ٹاون سے ہو گیا. یہ ایک سنہرے ادبی دور کا آغاز تھا. پانئیرز میں بہت سے نامور شعراء شاعرات اور ادب سے محبت رکھنے والے لوگ شامل تھے جنہیں ہم کبھی بھی بھلا نہیں سکتے۔
ڈاکٹر شہناز مزمل صاحبہ نے بطور چئیر پرسن اپنے فرائض سنبھالے اور جناب فیصل حنیف صاحب کو ادارے کی صدارت کا عہدہ دیا گیا ان کے ساتھ جناب محمود سرور صاحب ادارے کے نائب صدر منتخب ہوئے یوں ادارے نے اپنا ابتدائی سفر شروع کیا۔ وقت کے ساتھ ادبی کارواں بھی بڑھتا گیا اور ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔
1990 میں جناب کرامت بخاری اور در انجم صاحبہ نے بطور ادب سرائے انٹرنیشنل جنرل سیکریٹری کے فرائض سنبھالے اور 1996 تک ادارے میں اپنی ادبی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ان کی ادبی خدمات کو ادارہ قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
شاہد بخاری کا نام بھی انہیں اہم ادبی ستاروں میں آتا جنہیں ہم نے اپنی ادبی دنیا میں ہمیشہ چمکتا دمکتا اور روشنیاں بکھیرتے ہوئے پایا ہے۔ ویسے تو شاہد بخاری صاحب عرصہ دراز سے ادب سرائے انٹرنیشنل سے منسلک رہے ہیں مگر 1997 سے لے کا 2010 تک ان کی گراں قدر ادبی خدمات جو انہوں نے بطور جنرل سیکریٹری فراہم کیں ادارہ انہیں بھی انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
2010 کے بعد جناب ندیم اظہر ساگر اور محترمہ صفینہ سلیم چوہدری نے بطور جنرل سیکریٹری ادارے میں اپنی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا اور 2017 تک ادب سرائے کے 30 سنہری سال مکمل کئے۔
ادب سرائے اپنے تمام معاونین اور ہمسفر ادبی دوستوں کو اور ان کے ادبی جذبے اور لگن کو سراہتا چلا آیا ہے۔ اور جہاں تک ادارے سے ممکن ہوا تمام اہم شاعروں، ادیبوں، مصنفوں، افسانہ نگاروں، صحافیوں، ادبی تنظیموں کے سربراہوں اور ادب سے محبت رکھنے والے دوستوں کو شہناز مزمل ادبی ایوارڈز کے سلسلے میں شامل کرتا رہا ہے اور ان کی خاطر خواہ پزیرائی بھی کرتا رہا ہے۔
شعری تصانیف
۔ ابتداۓعشق1
۔ عشق تماشہ2
۔ عشق مسافت3
۔ عشقِ مسلسل4
۔ عشق دا دیوا5
۔عشق دا بھانبھڑ6
۔ عشقِ کل7
۔ انتہائے عشق8
۔ نورِ کل9
۔جادہء عرفاں10
۔ بعد تیرے11
12۔ قرضِ وفا
13۔ میرے خواب ادھورے ہیں
14۔ موم کے سائبان
15۔ جراءتِ اظہار
16۔ جذب و حروف
17۔ پیامِ نو
18۔ شہناز مزمل کے منتخب اشعار
19۔ کھلتی کلیاں مہکتے پھول
20 . Ten Poets of Today
21۔ نورِ فرقان
( قران ِ پاک کا منظوم مفہوم ترجمہ)
22۔ کلیات شہناز مزمل(غزل)
23۔ کلیات شہناز مزمل (نظم)
24۔ کلیاتِ عشق
نثری تصانیف
25۔ کتابیات اقبال
26۔ کتابیات مقالہ جات
27۔ لائبریریوں کا شہر لاہور
28۔ فروغِ مطالعہ کے بنیادی کردار
29۔ عکسِ خیال
30۔ دوستی کا سفر (سفر نامہ)
31۔ نماز (بچوں کے لیے)
32۔ سفرِ عشق(سفر نامہ مکہ المکرمہ،مدینہ منور،ریاض)
33۔ اجلا کون میلا کون(کالموں کا مجموعہ)
34۔ بریف کیس۔ کہانیاں
تحقیقی مقالہ جات
1۔ ڈاکٹر شہناز مزمل شخصیت اور فن (سال 2009 )
مقالہ نگار : صدف رانی، نگران تحقیق: ڈاکٹر مزمل بھٹی
مقالہ برائے : ایم اے
یونیورسٹی: اسلامیہ بہاولپور یونیورسٹی
2۔ شہنازمزمل کی شاعری کے دینی عناصر (سال 2015 )
مقالہ نگار :مقدس ستار، نگران تحقیق: عارفہ شہزاد
مقالہ برائے: ایم اے اردو
یونیورسٹی: اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی، لاہور
3۔ شہناز مزمل کے سفر نامے دوستی کے سفر کا تجزیاتی مطالعہ ( سال 2015 )
مقالہ نگار: ثناء خاور، نگران تحقیق: مسز حنا نعمان
مقالہ برائے: بی ایس اردو
کالج: گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ،سمن آباد، لاہور
4۔شہناز مزمل کی اُردو غزل اور نظم کا فکری و فنی مطالعہ (سال 2014)
مقالہ نگار : حنا نعمان، نگران تحقیق: ڈاکٹر محمد نعیم بزمی
مقالہ برائے : ایم فل اردو
یونیورسٹی: مہناج یونیورسٹی لاہور
5۔ مقالہ: خواتین کی اردو نعتیہ شاعری کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ (سال 2021)
مقالہ نگار :رضوانہ بی بی، نگران تحقیق: ڈاکٹر ریاض مجید
مقالہ برائے : ایم فل اردو
یونیورسٹی: علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد
6۔ شہناز مزمل کے نعتیہ مجموعے رمزِ عشق کا تجزیاتی مطالعہ(سال 2021)
مقالہ نگار :فریحہ وسیم، نگران تحقیق: ڈاکٹر فوزیہ صدیق
مقالہ برائے : بی ایس اردو
یونیورسٹی: لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی، لاہور
7۔ شہناز مزمل کے شعری مجموعے “موم کے سائبان ” کا فکری اور فنی جائزہ (سال 2021)
مقالہ نگار :ناہید ارشد، نگران تحقیق: روبینہ شاہین
مقالہ برائے : بی ایس اردو
یونیورسٹی: لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی، لاہور
8۔ پاکستان میں خواتین کے تراجمِ قران کا علمی جائزہ (سال 2021)
مقالہ نگار :مدیحہ عباسی نگران تحقیق: محمد سعید شیخ
مقالہ برائے : ایم فل قران و تفسیر (علومِ اسلامیہ)
یونیورسٹی:دی اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور
لکھنا کب اور کیسے شروع کیا؟ محرک کیا تھا۔ (تفصیلی جواب ) ?
والد اور والدہ گھر میں ادبی سماجی اور مذہبی سرگرمیوں کا اہتمام کرتے تھے، اسی لیے بچپن سے ہی گھر میں ایک ادبی ماحول دیکھنے کو ملا۔ جب چوتھی کلاس میں تھی تو اپنی پہلی انگریزی نظم اپنے پرنسپل کی الوداعی تقریب پر لکھی ، اس نظم کو سب کی طرف سے خوب سراہا گیا۔ پانچویں جماعت میں بہترین تقریر پر پہلا انعام جیتا ۔ بیڈمنٹن اور ہائی جمپنگ ، لانگ جمپنگ کی چیمپئن رہی۔ فینسی ڈریس شوز کی بہترین پرفارمر بھی رہی، مارننگ اسمبلی کی لیڈر رہیں اور سکول اور کالج کی ہر ایکٹیوٹی بشمول شاعری، ڈرامہ، گیمز اور ڈیبیٹس میں حصہ لیتی رہی۔
اچھا ادب کیسا ہونا چاہئے۔۔کیا آج کا ادیب اپنے فرائض پورے کر رہا ہے ؟؟
ادب بہت تخلیق ہو رہا ہے اور آج کل کے سوشل میڈیا کے دور میں لوگ راتوں رات بڑے بہت بڑے ادیب بننا چاہتے ہیں، لیکن ایسا ہونا ممکن تو نہیں ہوتا مگر ہمارے معاشرے میں چند عناصر ایسے ہیں جو بغیر کسی میرٹ کو سامنے رکھتے ہوئے چند ایسے لوگوں کو بھی سامنے لے آتے ہیں جن میں تخلیقی صلاحیتیں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں ۔ اچھا ادیب جو واقعی ادیب ہوتا ہے وہ بہت اچھا ادب تخلیق کر رہا ہے کیوں کہ وہ ادب کو اپنے لیے ایک اولین حیثیت دیتا ہے اور ادب ایسے ہی تخلیق نہیں ہو جاتا ، اس میں مشاہدے کا وسیع ہونا ، انسان کے اندر احساس مندی کا جذبہ زیادہ ہونا اور اپنے اردگرد کے معاشرے کو جاننے کے لیے مطالعے کی عادت زیادہ ہونا نہایت ضروری ہے۔ جو ادب مطالعے کے بغیر تخلیق کیا جاتا ہے وہ وقتی ادب ہوتا ہے ۔ ادھر ادھر سے چند لائنیں لے کر اور اسے کوئی ادبی شکل دے کر سامنے لے آنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ یہ چیز وقتی طور پر تو پسندیدہ ہو سکتی ہے مگر یہ چیز ادب اور ادیب دونوں کے لیے ذہر قاتل ہوتی ہے۔ آج کا ادیب جو یقینا حقیقی معانوں میں ادیب ہے وہ اپنے فرائض پورے کر رہا ہے وہ مطالعہ بھی کرتا ہے، وہ مشاہدہ بھی کرتا ہے اور اپنے اردگرد رونما ہونے والے واقعات سے بھی پوری طرح واقف ہوتا ہے۔ اور مطالعہ کرنے سے اسے الفاظ کا چناؤ کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے اور مطالعہ اسے بہت کچھ بخشتا ہے ۔ نہ صرف لکھنے کا طریقہ ، لکھنے کا انداز اور لفظوں کا ذخیرہ اور جب لفظوں کا یہ ذخیرہ اس کی سوچ میں پیوست ہوتا ہے تو بہت خوبصورت چیز وجود میں آتی ہے۔ تو میں یہی کہوں گی کہ مطالعے کو اولین ترجیح دیں اور پھر ادب تخلیق کرنے کی کوشش کریں۔
ایوارڈز/وظائف؟
رائل امریکن یونیورسٹی سے اعزازی ڈاکٹریٹ،
میاں عامر محمود، ضلع ناظم، لاہورکی طرف سے شیلڈ سے نوازا گیا
ایوارڈ حسنِ کارکردگی
ادبی ایوارڈ
وزیر تعلیم کی طرف سے تعریفی خط
جنگ” ٹیلنٹ ایوارڈ ایجوکیشن اینڈ ڈائریکٹر جنرل پبلک لائبریریز، پنجاب
بہترین اردو شاعرہ کا ایوارڈ
سلمیٰ تصدق ایوارڈ برائے ورسٹائل لیڈی آف دی ٹاؤن
پی ایل اے، پنجاب کی طرف سے بہترین لائبریرین کے لیے گولڈ میڈل
خواجہ فرید سنگت کی طرف سے گولڈ میڈل
ہیرا فاؤنڈیشن، امریکہ کیا طرف سے ایوارڈ برائے سال 2019 اور 2020
جی وی ایف سی آئی جی او انٹر نیشنل، امریکہ کی طرف سے ایوارڈ برائے سال 2019 اور 2020
ایکو کئیر کنسلٹینیسی سرویسز پرائیویٹ لمیٹیڈ کیر طرف سے ایوارڈ برائے سال 2018 اور 2019
سوشو آن کی طرف سے ایوارڈ برائے سال 2019 اور 2020
بیسٹ لائف نوٹس پبلیکیشن سیریز سال 2018 اور 2019
وقارِ سخن پبلیکیشن سیریزایوارڈ برائے سال 2018 اور 2019
مارول سسٹم نالج سیریزایوارڈ برائے برائے سال 2019 اور 2020
آبائی شہر اور موجودہ رہائش
?
آبائی شہر فیصل آباد، بچپن کے کچھ سال وہاں گزرے اس کے بعد سے پھر لاہور میں مستقل رہائش
ادب سرائے انٹرنیشنل، ماڈل ٹاؤن، لاہور
عارضی رہائش بیٹیوں کی طرف بھی ہوتی ہے، سعودی عرب میں بھی، اور اسلام آباد میں بھی
پسندیدہ شعر/نظم/غزل ?
میں کیسے بتاﺅں کہ کیا دیکھتی ہوں
تصور میں صلیِ علیٰ دیکھتی ہوں
مجھے اُن کی رحمت صدا دے رہی ہے
محمد کے در کو کھلا دیکھتی ہوں
کروں بند اپنی میں آنکھوں کو کیسے
حرم پاک میں ہوں خدا دیکھتی ہوں
یہ ماہِ مقدس ہے جھولی کو بھر لوں
خدا کی میں جود و سنحا دیکھتی ہوں
شفاعت شفاعت شفاعت شفاعت
محمد کے لب پر دعا دیکھتی ہوں
عطا ربّ کی کتنی ہے شہناز دل پر
محمد محمد لکھا دیکھتی ہوں
شاعرہ: ڈاکٹر شہناز مزمل
تصنیف: نورِ کل
پسندیدہ مشغلہ ?
پسندیدہ مشغلہ بچپن سے ہی پڑھنا لکھنا اوڑھنا بچھونا رہا، اور اس کے لیے جب میں دسویں کلاس میں تھی تو میں نے ساری کلاسکس کتابیں یعنی سعادت حسین منٹو، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر اور اس کے لیے جو ناول اور افسانے وغیرہ اس زمانے میں آیا کرتے تھے۔ یہاں تک کے ابنِ صفی وغیرہ کے ناول سب پڑھ کر ختم کر چکی تھی ، اس کے بعد غنِ طالیبین، اور داتا علی ہجویری کی کتاب کشف المحجوب ، شاہاب نامہ، منٹو نامہ ، الکھ نگری، ممتاز مفتی کی کتابیں، یہ سب کتابیں مطالے کا حصہ رہیں اور ان سے بہت کچھ سیکھا اور آج تک یہی مطالعہ میرے ہم راہ چل رہا ہے اور زندگی کے بہت سے حقائق کو مجھ پر واضع کرتا چلا جا رہا ہے جو بغیر مطالعے کے یقینا ممکن نہیں تھے اور ابھی تک سب سے زیادہ پسندیدہ مشغلہ یہی ہے پڑھنا اور پھر لکھنا۔
خواب ?
ادب سرائے انٹرنیشنل نے شاید وہ بھی خواب پورے کئے جو اس نے کبھی دیکھے بھی نہیں تھے۔ ادب سرائے انٹرنیشنل بہت سے لوگوں کا مقروض ہے جن کی مسلسل محبت، لگن، محنت اور حوصلہ افزائی کی وجہ سے ادب سرائے انٹرنیشنل نہ تھکا، نہ چوکا اور نہ ہی ہارا اور اپنے سفر کو جاری رکھتے ہوئے اپنی منزل کی طرف گامزن رہا۔
مقصدِحیات ?
مقصدِ حیات انسانیت کی خدمت ہے ۔ انسانیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں حقوق اللہ تو معاف کر دوں گا مگر حق العباد معاف نہیں کروں گا۔ شروع سے یہی سیکھا، پڑھا سمجھا، اور اسی کو اپنایا کہ انسانوں کی خدمت کرنی ہے ، انسانوں کو خوش رکھنا ہے ۔ اور حقیقی خوشی انسانیت کی خدمت میں ہی ملتی ہے اور اس کے لیے ایک سچا دل ہونا بہت ضروری ہے ایسا دل جو انسانوں کی قدر کرنے والا ہو ، انسانیت کو پہچاننے والا ہے، غلطیوں کو معاف کرنے والا ہو، دوسروں کی خوشیوں میں خوش ہونے والا ہو۔ اور اپنی زندگی کا مقصد یہی بنائے کہ میں کبھی کسی کو تکلیف نہیں دوں گا اور اگر ہم کسی کو تکلیف نہیں دیں گے تو کوئی ہمیں بھی تکلیف نہیں دے گا اور یہی میرا مقصدِ حیات ہے جو آج تک میرے ساتھ ہے۔
پسندیدہ کتاب ?
پسندیدہ کتاب قرانِ پاک ، بچپن سے لے کر اب تک قرانِ پاک کے الفاظ اپنے بزرگوں کی زبانی میرے کانوں تک پہنچتے رہے اور بہت ساری چیزیں زبانی یاد ہو گئیں کیوں کہ میرے والد صاحب اونچی آواز میں تلاوت کیا کرتے تھے تو ان سے بہت کچھ سیکھا اور پھر جب قرانِ پاک کو پڑھنا شروع کیا ، اور جب قران کو سمجھ کر پڑھنا شروع کیا تو پھر اس میں وہ لطف آیا جو کسی بھی اور کتاب میں نہیں آیا اور آج تک بھی جب میں قرانِ پاک کو پڑھتی ہوں تو ایک عجیب لطف محسوس ہوتا ہے ہر دفعہ ایک منفرد اور خوبصورت رنگ سامنے آتا ہے۔ جو کسی بھی دوسری کتاب میں نہیں ملتا اور اسی چیز نے مجھے مائل کیا کہ میں قرانِ پاک کا منظوم مفہوم لکھوں اور پھر اللہ تعالیٰ نے قرانِ پاک کا منظوم مفہوم مکمل کروایا۔ اور اس طرح سے ایک اور رستہ مجھے دیکھایا اور اسے مکمل کرنے کے لیے مجھے قران کو اور اچھی طرح سے پڑھنے اور سمجھنے کا موقع ملا اور اسے منظوم شکل دینے میں آسانی ہوئی۔ اور یقین جانئے قرانِ کریم سے بہترین کتاب اور دوسری کوئی بھی نہیں ہے ، زندگی کا ہر موضوع آپ کو اس کتاب میں ملے گا اور اگر آپ اس پر عمل کریں گے تو آپ کی زندگی ایک بہترین زندگی بن جائے گی۔
پسندیدہ شخصیت ?
پسنددیدہ شخصیت یقینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن کی شخصیت قرانِ پاک کی چلتی پھرتی تفسیر ہے اور جن کی زندگی میں ہمیں کہیں بھی کوئی برائی کا عنصر نظر نہیں آتا ، کوئی جھوٹ نظر نہیں آتا، کوئی غلط بات نظر نہیں آتی، کسی کو برا کہتے ہوئے نظر نہیں آتے، کسی کو تکلیف دیتے ہوئے نظر نہیں آتے ، کسی کام سے جی چراتے ہوئے نظر نہیں آتے، کون سی ایسی خوبی ہے جو ان میں نہیں پائی جاتی ، اور برائی کا شائبہ تک بھی نعوذباللہ ان میں موجود نہیں ہے۔ ایک ایسی شخصیت جو ہمہ گیر ہو، ہمہ جہت ہو، اور اللہ تعالیٰ نے جسے خود اپنے ہاتھوں سے بنایا ہو، اور جن کو خود پڑھایا ہو ، جن کا استاد بھی ربِ کائنات خود ہو، جبرائیل علیہ اسلام جن کے لیے وحی لے کر آتے ہوں اللہ کی طرف سے، تو ان سے زیادہ بہترین شخصیت کس کی ہو سکتی ہے اور وہی شخصیت ہمیں اسی طرح سے عمل کر تی ہوئی نظر آتی ہے ، جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں۔ قرانِ پاک کی چلتی پھر تی تفسیر میرے پیارے نبی ِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔
گروپ کا پسندیدہ سیگمنٹ ?
اچھا گروپ تخلیق کیا ہے اور اس میں اچھی بات یہ ہے کہ ادیبوں کو شامل کیا ہے اور ایسے ادیبوں کو شامل کیا ہے جو حقیقی معانوں میں ادیب ہیں اور اچھا ادب تخلیق کر رہے ہیں۔
گروپ کے لئے چند الفاظ/تجاویز ?
کام کام اور کام، میرا ہمیشہ یہی پیغام ہوتا ہے ، کیوں کہ زندگی اللہ تعالیٰ نے ہمیں مختصر دی ہے اور اس کا ہر لمحہ بہت قیمتی ہے، اور ہر لمحہ ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے ، اور ایمان داری سے اپنے ہر کام کو انجام دینا چاہے ہم ٹھیلے پر پھل بیچ رہے ہوں ، چاہے ہم ٹائرو ں میں ہوا بھر رہے ہوں، چاہے ہم پیٹرول پمپ پر پیٹرول ڈال رہے ہوں، استاد ہوں، ڈاکٹر ہوں انجینئرز ہوں، وکیل ہوں ، ڈاکٹرز ہوں، چاہے ہم بہت بڑی شاپ یا فیکٹری کے مالک ہوں، ہمارے اندر ایمانداری اور انسانیت ضرور ہونی چاہیے اور ہمیں کام کرنے کی عادت ہونی چاہیے ، دوسروں پر بوجھ بننے کی بجائے خود سے کام کرنے کی عادت ہونی چاہیئے، اور محنت کر کے خود کو آگے بڑھنے کے لیے تیار رکھنا چاہیئے۔
اس گروپ میں شامل جتنے بھی لوگ ہیں میرے چھوٹے ، بڑے، بچے، میں ان سب کو یہی کہوں گی یہ وقت کو بہت اہمیت دیں اور وقت کی قدر اسی طرح ہو سکتی ہے کہ اس کا ہر لمحہ اچھے کام کرنے میں گزاریں اور لوگوں کے لیے ایک اچھا معاشرہ چھوڑ کر جائیں۔ تاکہ لوگ آپ کو اچھے الفاظ میں یاد کر سکیں۔ اور جو معاشرہ آپ تشکیل دیں وہ ایک ایسا معاشرہ ہو جس کی کہیں مثال نہ ملتی ہو۔
دعا گو! ڈاکٹر شہناز مزمل
چئیرپرسن
ادب سرائے انٹرنیشنل
www.adabsaraae.com
فاؤنڈر
وقارِ پاکستان لیٹریری ریسرچ کلاؤڈ
www.waqarpk.com
پرنسپل لیٹریری کنسلٹینٹ
مارول سسٹم
www.marvelsystem.com
Mian Waqar2022-07-17T21:55:19+00:00
Share This Story, Choose Your Platform!