اظہارِ تشکر کے چند قطرے
تحریر: میاں وقارالاسلام
خدا نے اپنے علم سے کائنات کی ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے، ہم اس کائنات میں، علم کے وسیع سمندر سے، اپنے رب کی اجازت سے، چند قطرے چن کر لاتے ہیں، یہی قطرے ہمارے ہماری پہچان بنتے ہیں، ہمارے جینے کا مقصد بنتے ہیں، ہمیں راستہ دیکھاتے ہیں اور ہمارے سیکھنے کے عمل کو جاری رکھتے ہیں۔ کبھی یہ ہماری آنکھوں میں خوشی بن کر چمکتے ہیں، کبھی ہماری توبہ کی قبولیت کی وجہ بنتے ہیں، کبھی ہمارے جذبات کی نمائندگی کرتے ہیں اور یوں یہ ہماری شخصیت کو بناتے ، سنواتے اور نکھارتے چلے جاتے ہیں۔
اور اگریہی قطرے ہماری دسترس سے نکل کر دور چلے جائیں ، تو احساس دم توڑنے لگتا ہے، سانسیں گھٹنے لگتی ہیں، آنکھیں پتھرانے لگتی ہیں، منظر دھندلانے لگتے ہیں، راستے کھو جاتے ہیں، منزلوں کے نشان بھی باقی نہیں رہتے، زندگی بے راہ روی کی دلدل میں اترتی چلی جاتی ہے۔وجود کھوکھلے ہو جاتے ہیں اور ایسے وجود کی پہچان ایک زندہ لاش سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی کہ جیسے ہی موت آئی بھلا دیا گیا۔ یا پھر ایسے یاد رکھا گیا کہ اگر بھلا ہی دیا جاتا تو قدرے بہتر ہوتا۔
شکرہے اُس پاک ذات کا جس نے ہمیں پیدا کیا ،ہمارے مردہ دلوں کو اپنے علم کے نور سے روشن کیا، ہمیں اپنی مخلوقات میں سب پر فضیلت دی، ہمیں سیکھے اور سمجھنے کے قابل بنایا، ہمیں راستے دیئے ، ان راستوں پر چلنے کا طریقہ سیکھایا اور منزلوں کے نشان بھی وضع کئے۔ اس کے باوجود بھی ہم ٹھوکروں پر ٹھوکریں کھاتے ہیں، کبھی کنوئیں میںجا گرتے ہیں، کبھی کھائی میں جاپڑتے ہیں اور وہاں سے بھی جب اپنے رب کو پکارتے ہیں تو وہ ہمیں تمام اندھیروں اورہر طرح کی گہرائیوں سے پھر نکال لاتا ہے، ہماری حالت درست کرتا ہے اور ہم پر اپنی رحمتیں پوری کرتا ہے اور اپنے فضل سے نوازتا ہے، تاکہ ہم صرف اور صرف اُسی کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلیں جس میں ہماری دنیا اور آخرت کی کامیابی لکھ دی گئی ہے۔ دعا ہے کہ اللہ ہمیں اپنے بتائے ہوئے راستے پر چلنے اور اسی پرثابت قدم رہنے کی توفیق دے ۔ امین۔
میاں وقارالاسلام
شہرِ داغدار